گندم خریداری کا معاملہ: کسانوں کا سڑکیں بند کرنے کا اعلان

کسانوں کا کہنا ہے کہ ’لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باجود گندم کھیتوں میں ضائع ہو رہی ہے جب کہ حالیہ مہنیوں میں گندم درآمد کرنے والوں نے اربوں روپوں کا کمیشن بنا لیا لیکن سزا کسانوں کو دی جا رہی ہے۔‘

پنجاب میں اپوزیشن اراکین اسمبلی مال روڑ پر کسانوں کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں (محمد عمران)

پنجاب میں سرکاری سطح پر خریداری شروع نہ ہونے سے گندم کی قیمتیں مزید گرنے لگیں جس پر کسانوں نے حکومتی ’بےحسی‘ پر احتجاجی تحریک جاری رکھتے ہوئے کل (بروز جمعہ) مرکزی شاہراہیں بند کرنے کی کال دے دی ہے۔

حکومت پنجاب کی جانب سے رواں سال گندم کی قیمت 3900 روپے فی من مقرر کی تھی۔ اب جب کہ صوبے میں بیشتر علاقوں میں کٹائی مکمل ہو چکی ہے جس سے گندم کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں لیکن حکومتی ریٹ پر ابھی تک خریداری شروع نہیں ہو سکی۔

اس صورت حال میں گندم کی عام مارکیٹ میں قیمت 28 سو روپے تک گر چکی ہے۔

صوبائی وزیر خوراک یاسین بلال کے مطابق ’بارش کی وجہ سے گندم میں 20 فیصد تک نمی موجود ہے اس لیے جب تک نمی کی شرح کم ہوکر 10 فیصد تک آتی ہے تو خریداری شروع کر دی جائے گی۔‘

کسان اتحاد کے چیئرمین نے اعلان کیا ہے کہ ’حکومت کی جانب سے اعلان کردہ قیمت پر گندم کی خریداری نہ ہونے کے خلاف کل (جمعے کو) کو مرکزی شاہراہوں کو بلاک کر کے دھرنا دیں گے۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ ’ایک ایکڑ پر ڈیڑھ لاکھ تک خرچہ ہونے کے باجود لاکھوں ٹن گندم کھیتوں میں ضائع ہو رہی ہے جب کہ حالیہ مہنیوں میں گندم درآمد کرنے والوں نے اربوں روپوں کا کمیشن بنا لیا لیکن سزا کسانوں کو دی جارہی ہے۔‘

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن جماعت سنی اتحاد کونسل نے مال روڑ پر کسانوں کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بچڑ نے کہا کہ ’نگران دور حکومت میں لاکھوں ٹن گندم درآمد کر کے فروخت کرنے والوں کا تعین کیا جائے اور ان کے نام سامنے لائے جائیں۔‘

گندم کی درآمد پر تحفظات اور کسانوں کا لائحہ عمل

پنجاب میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بچڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اسمبلی سے ہمارے ارکان نے کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج کیا ہے۔ حکومت ٹک ٹاک پر چل رہی ہے جب کہ نام نہاد وزیراعلیٰ صاحبہ کے پاس جعلی مینڈیٹ ہے۔ ان کا پہلا امتحان کسان سے گندم خریدنا تھا جس میں وہ بری طرح ناکام رہیں۔‘

احمد خان بچڑ نے مزید کہا کہ ’موجودہ حکومت نے خود 3900 روپے فی من گندم خریدنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد میں انہیں سمجھ آئی کہ انہی کی بنائی ہوئی نگران حکومت نے یوکرین سے جو 44 لاکھ ٹن گندم منگوائی ہے اس کا کیا کیا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’درآمد کی گئی گندم 41 سو روپے من میں پڑی جس سے حکام نے پانچ ہزار روپے من تک مارکیٹ میں فروخت کر کے 85 ارب روپے تک کمیشن بنایا گیا۔ اب کہا جا رہا ہے اس میں سے 23 لاکھ ٹن گندم گوداموں میں موجود ہے۔ حکومت بتائے کہ بمپر فصل ہونے کی رپورٹ کے باوجود گندم درآمد کرنے کا ذمہ دار کون تھا اور کس نے کمیشن بنایا؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

احمد خان بچڑ کے بقول، ’یہ پہلے کمیٹی کمیٹی کھیلتے رہے بعد میں وزیر نے اعلان کر دیا کہ ہم گندم نہیں خرید رہے۔ اس وقت کسان 2200 روپے فی من گندم فروخت کرنے پر مجبور ہے۔‘

ان کے بقول: ’یہ حکومت ناکام ہو چکی ہے کیوں کہ یہ کسان کش حکومت ہے۔ ن لیگ کے اپنے ارکان نے ان پر عدم اعتماد کر دیا ہے۔ اب یہ کسانوں کو گرفتار کر رہے ہیں اور انہیں اٹھایا جارہا ہے۔ کسان اپنا حق مانگ رہے ہیں، یہ انہیں جیل میں بھیج رہے ہیں۔ جب تک کسانوں کے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے ہم احتجاج جاری رکھیں گے۔‘

کسان اتحاد کے چیئرمین خالد حسین باٹھ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کیسی حکومت ہے جس نے خود گندم 39 سو روپے فی من خریداری کا اعلان کیا لیکن ابھی تک خریداری شروع نہیں کی۔ صرف چھ ایکڑ کے کاشت کار سے خریدنے کا مطلب ہے کہ باقی سب کسان گندم ضائع کر دیں۔ اس عمل سے مارکیٹ میں گندم کی قیمت 22 سو سے 28 سو تک آ چکی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو کاشت کار خودکشیوں پر مجوبر ہو جائیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے احتجاج کر کے اپنا حق لینے کی کوشش کی تو ہمیں پولیس تشدد اور گرفتاریوں سے ڈرانے کی کوشش کی گئی۔ اس سال بمپر کراپ ہے لیکن کسان کی خوشی کو غم میں بدل دیا گیا ہے۔ ایک ایکڑ پر ڈیڑھ لاکھ روپے تک خرچہ آیا ہے لیکن گندم سستی ہونے سے خرچہ بھی پورا نہیں ہو رہا۔ مہنگی کھاد، مہنگے بیج اور ڈیزل نے کاشت کاری مشکل بنا رکھی ہے۔‘

خالد حسین نے اعلان کیا کہ ’ہم نے جمعے سے پنجاب کے شہروں میں مرکزی شاہراہیں بلاک کر کے دھرنے دینے کی کال دے دی ہے۔ کسان اپنے بچوں اور جانوروں کو بھی ساتھ سڑکوں پر نکالیں گے۔‘

حکومتی حکمت عملی

صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری حکومت تو اب آئی ہے لیکن گندم کے گودام درآمدی گندم سے پہلے ہی بھرے ہیں، لہٰذا کسانوں کی اس مشکل کی ذمہ دار موجودہ حکومت نہیں ہے۔ البتہ ہم نے اس صورت حال میں بھی موثر حکمت عملی تیار کی ہے۔‘

ان کے بقول: ’حکومت نے چار سو خریداری مراکز قائم کر دیے ہیں جہاں فارمولے کے تحت حقیقی کاشت کار جو چھ ایکڑ کے مالک ہیں ان سے سرکاری ریٹ پر گندم کی خریداری جلد شروع کر رہے ہیں۔ ابھی بارشوں کی وجہ سے گندم میں نمی کا تناسب 20 فیصد ہے جیسے ہی یہ شرح 10 فیصد  تک آئے گی خریداری شروع کر دی جائے گی۔‘

بلال یا سین نے کہا کہ ’ہم کسانوں کے ساتھ ہیں اور جلد کسان کارڈ کے زریعے کاشت کاروں کو سبسڈی دینے کی پالیسی دی جا رہی ہے۔ جس پر وہ کھاد، بیج اور سپرے خرید سکیں گے۔ جہاں تک گندم خریداری کا ہدف ہے تو اس کے بارے میں کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ ضرورت کی گندم خریدیں اور مارکیٹ میں فلور ملز اور دیگر خریداروں کو بھی حکومتی قیمت پر خریداری پر مجبور کر سکیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’گندم خریداری مراکز پر باردانہ پہنچنا شروع ہو گیا ہے جو میرٹ کے مطابق اصل کاشت کاروں میں تقسیم کر کے ان سے گندم لی جائے گی۔‘

سابق نگران حکومت کا کیا موقف ہے؟

سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے دور میں صوبوں کی ڈیمانڈ پر گندم درآمد کی گئی اس وقت آٹے کی قیمت سو روپے تھی درآمدی گندم سے یہ قیمت 60 روپے فی کلو تک نیچے آئی جس سے غریب طبقہ مستفید ہوا۔ اس عمل پر کوئی ندامت نہیں ہے اگر اس حوالے سے کوئی تحقیقات کرانا چاہے تو ہم حاضر ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اب بھی مقررہ قیمت کے مطابق کسانوں سے گندم خریدے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان