اب سنجے لیلا بھنسالی کی ’ہیرامنڈی‘ کا کیا کرنا ہے؟

نیٹ فلکس پر آنے والی سیریز ’ہیرا منڈی میں پرتعیش سیٹ، سونے چاندی سے لدے پھندے کردار، شعلے اگلتے فانوس لاہور کے شاہی محلے کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ شداد کی بہشت ماند پڑ جائے۔

سنجے لیلا بھنسالی کی نیٹ فلکس سیریز یکم مئی کو نمائش کے لیے پیش کی گئی (نیٹ فلکس)

یہ لاہور کا شاہی محلہ ہے جہاں اشرافیہ کے بچے تربیت حاصل کرنے آتے ہیں۔ یہاں رقص و سرود کی محفلیں جمتی اور آپس کی رقابتیں پروان چڑھتی ہیں۔ طوائف سامراج کے خلاف بغاوت کا بھی ایک کردار ہے۔ ان تاریخی حقائق کو سونے سے بنے کوڑے دان میں کچرے کی صورت پھینک دیں، لیجیے سنجے لیلا بھنسالی کی ’ہیرا منڈی‘ تیار ہے جسے یکم مئی کو نیٹ فلکس پر پیش کیا گیا۔

’باجی راؤ مستانی‘ اور ’پدماوتی‘ دیکھنے کے بعد نہیں لگتا تھا کہ پیریڈ ڈرامے میں اس سے زیادہ تصنع بھی ہو سکتا ہے، لیکن بھنسالی نے ثابت کیا کہ نہیں اس سے کئی درجے بڑھ کر سطحی پن کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے۔

ایسی بدذائقہ کھچڑی تو 1930 کی دہائی والے ٹارزن ٹائپ سی گریڈ مویز کے فلم ساز بھی نہیں بناتے ہوں گے۔ ہم نے ان کی پہلی فلمیں تو کسی نہ کسی طرح برداشت کر ہی لی تھیں اب اس شاہکار کا کیا کرنا ہے؟

 آٹھ قسطوں پر مشتمل اس ویب سیریز کو ناقابل برداشت حد تک ناگوار جو چیز بناتی ہے وہ اس کا مصنوعی ماحول ہے۔ سنہرے سیٹ، سونے چاندی سے لدے پھندے کردار، شعلے اگلتے فانوس لاہور کے شاہی محلے کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ شداد کی بہشت ماند پڑ جائے۔ چلیں مان لیا کہ بھنسالی کا یہ ہنر ہے جو اسے دکھانا ہی تھا مگر کرداروں کی زبان، موسیقی، اداکاری، کہانی اور سکرین پلے بھی تو کسی چڑیا کا نام ہے۔

 یہ کمزور نہیں مردہ کہانی ہے، پلاٹ میں مسئلہ نہیں پلاٹ خود ایک مسئلہ ہے۔ ایک قسط دیکھنے کے بعد آپ کا تجسس آپ کو کھینچتے ہوئے آگے نہیں لے جاتا، خود کو ہانکنا پڑتا ہے۔ آپ سوچتے ہیں خیر ہے اگلی قسط بعد میں بھی دیکھ لی تو چلے گا، نہ دیکھی تو بیسٹ ہے۔

بازار حسن اور طوائفوں کا ٹھاٹھ باٹ تاریخ کی کتابوں میں حسن خوابیدہ کی مانند تھا جسے کمال امروہی اور مظفر علی نے دھڑکتی تصویروں کی صورت ہمارے دلوں پر نقش کیا۔ ممکن ہے تاریخی حقائق ذرا ادھر ادھر ہو گئے ہوں لیکن مجال ہے ’پاکیزہ‘ اور ’امراو جان‘ دیکھتے ہوئے یقین کرنے میں ذرا سی بھی دقت پیش آئے کہ ہاں لکھنؤ کا بازار ایسا ہی ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مغل اعظم، پاکیزہ اور امراؤ جان کو لافانی شاہکار بنانے میں بھاری بھرکم کاسٹیوم اور بڑے بڑے سیٹس کی اہمیت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے ساتھ ساتھ تحقیق، کہانی، مکالموں اور موسیقی میں بھی وہ سنگ میل ہیں اور یہ سب چیزیں مل کر ایک لافانی شاہکار بناتی ہیں۔ بھنسالی کی ’ہیرا منڈی‘ میں سارا زور (اور ضرورت سے منوں ٹنوں زیادہ) کاسٹیوم اور سیٹ پر ہے۔

یہ 40 کی دہائی کا لاہور ہے۔ عالم زیب کتابوں کی رسیا ہے۔ ایک دن کتابیں خریدنے لاہور کتاب گھر جا پہنچتی ہے۔ آپ نے سوشل میڈیا پر یورپی ممالک کے کتاب گھروں کی تصاویر دیکھی ہوں گی۔ بالکل ویسا ہی ماحول ہے۔ دیو قامت عمارت، ترتیب وار ریک جہاں سیڑھیاں لگا کر کتابیں نکالی جاتی ہے۔

باہر لوگ ’انقلاب، زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے گزر رہے ہیں۔ لاہور کی وہ سڑک، اس کی دیواریں، نعرے لگانے والے عام ہندوستانیوں کے کپڑے، پگڑیاں، جوتے ایک دم نئے نویلے۔ ایسے لش پش سے لوگ آزادی کے لیے جد و جہد کرتے تھے۔

عالم زیب شاعرہ ہے، امراؤ جان ادا بھی شاعرہ تھی۔ ایک 19ویں صدی کے لکھنؤ کی، دوسری 20ویں صدی کے لاہور کی۔ دونوں کی لفظیات دیکھ لیجیے اور مصرعوں کی تراش خراش پہ ضرور غور کیجیے گا کہ کہاں اپنے زمانے کی جھلک نظر آتی ہے اور کہاں ایسی پرچھائی تک نہیں پڑتی۔

تین ہفتے سے میڈیا نے طوفان سر پہ اٹھایا ہوا کہ سٹار کاسٹ ہے جی۔ بس حسن و جمال کا بم پھٹنے والا ہے۔ طوائفیں چن چن کر ایسی شامل کی جن کا حسن دل تو آنکھ کو بھی لبھا نہیں پاتا۔ مردوں میں تاجدار بلوچ کا کردار طٰحیٰ شاہ کو دیا ہے۔ ایک شہری لک والے لڑکے کو مونچھ چپکا دینے سے وہ نوابزادہ بن جاتا ہے؟

سیریز میں بار بار اس کے حسن دل آویز کی تعریف ہوتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے فاروق شیخ کی جگہ راج کمار کو نواب سلطان کے رول میں کاسٹ کر لیا جاتا۔ بھئی جہاں حسن دکھانا ہے وہاں بھی تو دکھاؤ۔

بازار حسن میں موجود خواتین کے اپنے اندر کی دنیا کیسی ہوتی ہے؟ بھنسالی نے اس میں بھی جھانکنے کی کوشش کی اور بری طرح ناکام ہوئے۔

 آپ پچاس ڈائیلاگ بول کر وہ کام نہیں کر سکتے جو موزوں صورت حال، گیت یا چہرے کے تاثرات یا ان سب کے ملاپ سے کر سکتے ہیں۔ طوائف جتنا مرضی کہے کہ ’اس کی زندگی میں مرد ہوتے ہیں شوہر نہیں‘ ہمیں ککھ فرق نہیں پڑے گا۔ وہ چیختی رہے کہ بیاہ کر کے ایک عام زندگی اور بچوں کی خواہش مند ہے ہمارا دل نرم نہ ہو گا جب تک فلم کی صورت حال غیر محسوس طریقے سے ہمیں قائل نہ کرے۔

عالم زیب کے ایام گل کا آغاز ہوتے ہی ماں حکم دیتی ہے کہ تمہاری نتھ اتروائی کی رسم ہو گی۔ وہ اصرار کرنے لگتی ہے کہ شادی کرے گی۔ اس دوران اسے بلوچ نوابزادے سے پیار ہو جاتا ہے۔ کہانی آپ خود دیکھ لیجیے گا لیکن مجال ہے عالم زیب کی حسرت ہمارے دل پہ دستک دے سکے۔

طوائف کے من میں شادی کرنے، گھر بسانے اور اس سے بھی بڑھ کر بچے کی ماں بننے کی ازلی خواہش کا جیسا خوبصورت اظہار ’امر پریم‘ میں ہوا وہ ایک سین بھنسالی کے تمام کام پہ بھاری ہے۔

1972 کی اس فلم میں شرمیلا ٹیگور ایک طوائف کا کردار ادا کرتی ہیں جسے پڑوس کے ایک بچے سے انس ہونے لگتا ہے۔ یہاں سچویشن نکالی گئی کہ طوائف بچے کے ساتھ کھیلتے ہوئے گانا گائے گی۔

 ہدایت کار شکتی سامنت نے پنچم کو سچویشن سمجھائی اور وہیں دھن تیار ہوئی۔ یہ سب ایس ڈی برمن کے گھر میں ہو رہا تھا۔ شکتی ٹیون اوکے کر کے چلے گئے۔

 برمن دا اپنے بیٹے کے پاس آئے اور اسے کہا ’یہ طوائف ہنستے کھیلتے ہوئے بچے کے ساتھ نہیں گا رہی بلکہ اس کے اندر کی ماں گا رہی ہے، وہ ماں بننا چاہتی ہے لیکن بن نہیں سکتی۔ اس کی سسکار دھن میں سنائی دینی چاہیے۔‘

اس کے بعد برمن دا نے ہارمونیم سنبھالا اور ذرا سا اسے تبدیل کرتے ہوئے قیامت بھر دی۔

ایک انٹرویو میں آر ڈی برمن نے کہا تھا کہ میں نے اس دن اپنے باپ سے سب سے قیمتی سبق سیکھا کہ کردار کو باہر سے نہیں اندر سے پکڑو۔

استاد امانت علی خان کے بیٹے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ میرے والد کو لتا کا گایا ’بڑا نٹ کھٹ ہے کرشن کنہیا‘ بہت پسند تھا، وہ کہتے تھے ماں کی اولاد سے وارفتگی اس گیت میں چھلک چھلک پڑتی ہے۔

’امر پریم‘ کا ایک بھی مکالمہ ایسا نہیں جس میں پشپا ایسی کسی حسرت کا اظہار کرے۔ لیکن جیسے ہی یہ گیت بجتا ہے کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے۔ واقعی آرٹ میں بتایا نہیں دکھایا جاتا ہے۔

سنجے لیلا بھنسالی کوڑوں کی صورت ڈائیلاگ برساتے ہیں، وہ بتاتے کہ طوائف مظلوم ہے۔ وہ ہمیں غیر محسوس طریقے سے اس موڑ پر نہیں لے جاتے جہاں ہم اس کی بے بسی محسوس کر سکیں۔

ویسے تو ’ہیرا منڈی‘ سلسلہ در سلسلہ واہیات کی صورت پھیلی سیریز ہے لیکن بھیانک ترین پہلو اس کی موسیقی ہے۔

 شاید ہی طوائف کے موضوع پر بننے والی فلم سے بڑھ کر کسی اور فلم میں اچھی موسیقی کی اتنی گنجائش ہو۔ اس سلسلے میں ’پاکیزہ‘ سنگ میل ہے۔ ’امراؤ جان ادا‘ میں خیام نے انتہائی خوبصورت غزلیں ترتیب دیں، مغل اعظم میں نوشاد کی موسیقی سی رام چندر کی ’انار کلی‘ کا توڑ نہ سہی لیکن اپنی جگہ ایک شاہکار ہے۔

پاکستانی ’امراؤ جان‘ ایک انتہائی بےکار فلم تھی مگر سیف الدین سیف کی شاعری، نثار بزمی کی دھنیں اور رونا لیلیٰ کی آواز کسی قیامت سے کم نہیں۔

اپنی دیگر فلموں کی طرح بھنسالی نے موسیقی میں یہاں بھی ٹانگ اڑا لی۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ 1940 کی دہائی میں لاہور کی طوائفیں امیر خسرو کا کلام گا رہی ہیں۔ بھئی یہ دہلی نہیں ہے، یہاں پنجاب رنگ کا کوئی لوک صوفیانہ گیت ہوتا تو قابل فہم تھا۔ ویسے تب تک فلم کی موسیقی طوفان برپا کر چکی تھی اور فلم میوزک کا ایک بڑا ماخذ خود کوٹھا رہا ہے۔

’جودھا اکبر‘ (2008) میں اے آر رحمان کی موسیقی ایک شاہکار ہے۔ اس میں ایک گیت ہے ’ان لمحوں کے دامن میں‘ جسے جاوید اختر نے لکھا ہے۔ جب اکبر کا کردار آتا ہے تو بول فارسی روایت کے قریب ترین استعمال ہوتے ہیں، جب نسوانی آواز میں جودھا کے لیے گایا جاتا ہے تو زبان سماعتوں میں ہندی رس انڈیلنے لگتی ہے۔ اکبر کے لیے بول گائے جاتے ہیں تب افغان رباب اور گجک بجتے ہیں جبکہ جودھا کے لیے خالص ہندوستانی آلہ موسیقی وینا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جزئیات پر ایسی توجہ رحمان اور جاوید اختر جیسے گنی لوگ ہی دے سکتے تھے۔

ویسے آپ کو سنجے لیلا بھنسالی کی فلموں کے آج تک کتنے گانے یاد ہیں؟ ’دیوداس‘ میں مادھوری اور ایشوریا کے رقص نے کچھ آبرو رکھی ورنہ بھنسالی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی رکھی۔

ہیرامنڈی میں ایک لائن ہے، ’ہیرامنڈی عادت نہیں جو بدلی جا سکے یہ قسمت ہے۔‘ ایسا لگتا ہے بھنسالی کی فلموں میں بری موسیقی سننا بھی ہم بدنصیبوں کی قسمت ہے جو تبدیل نہیں کی جا سکتی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ