75 ہزار سال قدیم نینڈرتھال کے چہرے کے خدوخال جدید انسان جیسے تھے: تحقیق

ماہرین نے تھری ڈی پرنٹ کے ذریعے 75 ہزار سال پہلے ایک غار میں دفن نینڈرتھال خاتون کے چہرے کی ساخت بنائی ہے جو آج کے انسانوں سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔

نینڈرتھال خاتون 'شنیدر زیڈ' کا تھری ڈی ٹیکنالوجی سے دوبارہ بنایا گیا چہرہ (جیمی سائمنڈز)  

ماہرین آثار قدیمہ نے 75 ہزار سال پہلے ایک غار میں دفن نینڈرتھال (یورپ میں ابتدائی انسانوں کی نسل) خاتون کے انسانی چہرے کی ساخت بنائی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ معدوم نسل اس غاز میں آخری رسومات کی منفرد رسومات ادا کرتی ہوں گی۔

تحقیق میں اس نینڈرتھال خاتون کو شنیدار زیڈ کا نام دیا گیا ہے جس کی ہڈیوں کے ٹکڑے سب سے پہلے 2018 میں عراقی کردستان میں ایک غار سے دریافت ہوئے تھے جہاں یہ ابتدائی انسان اپنے مرنے والے رشتہ داروں کو دفنانے کے لیے یہاں واپس آتے تھے۔

1950 کی دہائی کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ نینڈرتھال اپنے مردہ رشتہ داروں کو غار میں منفرد آخری رسومات کے ساتھ دفنانے تھے جس میں انہیں پھولوں کے بستر پر لٹانا بھی شامل تھا۔

درحقیقت اس غار کی جگہ سے اکٹھے کیے گئے شواہد سے سب سے پہلے یہ پتہ چلا کہ نینڈرتھال ان قدیم مخلوقات سے کہیں زیادہ نفیس تھے جن کے بارے میں بہت سے لوگ ان کی پست قد والی جسمامت اور بندر نما بھنوں وجہ سے کم تر سمجھتے تھے۔

اگرچہ یہ نوع، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ 40 ہزار سال پہلے ختم ہو چکی تھی، ان کی کھوپڑی انسانوں سے بالکل مختلف تھی لیکن نینڈرتھال خاتون دوبارہ بنائی گئی ساخت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کی شکل موجودہ انسان جیسی تھی۔

یہ نتائج ایک نئی دستاویزی فلم ’سیکرٹس آف دی نینڈرتھالز‘ میں سامنے آئے ہیں جسے بی بی سی نے پروڈیوس کیا ہے اور دنیا بھر میں نیٹ فلکس پر ریلیز کیا گیا ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے محکمہ آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والی ایما پومیروئے نے کہا: ’نینڈرتھال کی کھوپڑیوں میں بھنوں کا ابھار زیادہ ہوتا ہے اور ٹھوڑی چھوٹی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں درمیانی چہرے پر ناک زیادہ نمایاں ہوتی ہے لیکن دوبارہ بنایا گیا چہرہ بتاتا ہے کہ یہ فرق اصل زندگی میں اتنا زیادہ نہیں تھا۔‘

دستاویزی نئی فلم میں شامل ڈاکٹر پومیروئے نے مزید کہا: ’یہ دیکھنا شاید آسان ہے کہ ہماری نسلوں کے درمیان کس طرح باہم افزائش ہوئی اور آج بھی ایک خاص حد تک ہر انسان میں نینڈرتھال ڈی این اے موجود ہے۔‘

محققین نے کہا کہ تقریباً دو سینٹی میٹر چپٹی ایک کھوپڑی سمیت خاتون کی باقیات اس صدی میں پائے جانے والے نینڈرتھال فوسلز میں سب سے زیادہ محفوظ ہیں۔

خاتون کا سر کچلا ہوا تھا، ممکنہ طور پر موت کے فوراً بعد پتھر گرنے سے یا دماغ کے گلنے سڑنے کے بعد لیکن ایسا کھوپڑی میں مٹی بھرے سے پہلے ہوا تھا۔

کمر تک ڈھانچے سمیت اس کی باقیات کو احتیاط سے نکالنے کے بعد کیمبرج کے محققین نے ہڈیوں اور اردگرد کی تہہ کو مضبوط کرنے کے لیے گوند نما کنسولیڈنٹ مادے کا استعمال کیا۔

انہوں نے غار کے اندر ساڑھے سات میٹر کی مٹی اور چٹان کے بلاکس کے نیچے ’پھولوں والی قبر‘ سے شانیدار زیڈ کو باہر نکالا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد انہوں نے اس کی کھوپڑی کے 200 سے زیادہ ٹکڑوں کو اس کی اصل شکل میں واپس کرنے کے لیے ایک ساتھ جوڑا، جس میں اس کے اوپری اور نچلے جبڑے بھی شامل تھے۔

ڈاکٹر پومیرائے نے کہا: ’یہ ایک ہائی سٹیک تھری ڈی جیگسا فلم کی پہیلی کی طرح ہے جس میں ایک ہی بلاک کو پروسیس ہونے میں پندرہ دن سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔‘

محققین نے دوبارہ تشکیل دی گئی کھوپڑی کی سطح کو سکین کیا اور اسے تھری ڈی پرنٹ کیا۔ اس کے ساتھ اس کے چہرے کو ظاہر کرنے کے لیے خود ساختہ پٹھوں اور جلد کی تہوں کو شامل کیا۔

قبر کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ شنیدار زیڈ کو بہتے پانی سے بننے والی ایک تنگ گھاٹی میں سپرد خاک کیا گیا تھا جسے لاش کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ہاتھ سے مزید کھدائی کی گئی تھی۔

لاش ایک طرف جھکی ہوئی تھی، اس کا بایاں ہاتھ اس کے سر کے نیچے تھا اور اس کے سر کے پیچھے تکیے کے طور پر ایک ایک چھوٹی سی چٹان رکھی گئی تھی۔

غار کے مرکز میں دو میٹر اونچی عمودی چٹان کے پیچھے اسی جگہ پر ایک ہی وقت میں دفن لاشوں کے ڈھیر سے اس خاتون کے فوسل کے پانچ حصے ملے ہیں۔

محققین کو لاشوں کے  ارد گرد کی مٹی میں جنگلی بیجوں اور میوؤں کے کاربنائزڈ ٹکڑوں سمیت جلی ہوئی خوراک کے نشانات بھی ملے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نینڈرتھالز اپنے مرنے والوں کی موجودگی میں کھانا تیار کرتے تھے۔

ڈاکٹر پومیروئے نے کہا: ’شنیدار زیڈ کی لاش آگ سے کھانا پکانے اور اسے کھانے والے زندہ افراد کے قریب موجود تھی۔ ان نینڈرتھالز کے لیے زندگی اور موت کے درمیان واضح فرق نظر نہیں آتا۔‘

غار کی کھدائی کرنے والے ماہر آثار قدیمہ گریم بارکر نے کہا: ’ہماری دریافت سے پتہ چلتا ہے کہ شنیدار نینڈرتھالز کی موت اور اس کے بعد کے حالات کے بارے میں سوچ ان کے قریب ترین ارتقائی کزن یعنی ہم سے بہت مختلف نہیں تھی۔‘

محققین نے کہا کہ یہ غار نینڈرتھالز کے بارے میں مزید جاننے کے حوالے سے ایک سنگ میل کا کام کر سکتی ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ ان کی تدفین کے لیے ایک منفرد مقام ہے۔

ڈاکٹر پومیروئے نے کہا: ’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ نینڈرتھال اپنے مردہ رشتے داروں کو دفنانے کے لیے ایک خاص جگہ پر لا رہے تھے۔ ایسا دہائیوں یا اس سے بھی زیادہ یعنی ہزاروں سال تک ہوسکتا ہے۔ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے یا یہ جان بوجھ کر کیے جانے والا عمل تھا اور اگر ایسا ہے تو کون سی چیز انہیں واپس لاتی تھی؟‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق