’ہجرت‘ کی راکھ سے لکھی گئی کہانیاں اور کارگل کا رنگچن پرگ

لداخ سے نقل مکانی کر کے پاکستان آنے والوں کی کہانیاں جو اب تک ان کہی رہ گئی تھیں۔

رنگچن پرگ کی کتاب بلڈ لائنز (عاشق فراز)

قیام پاکستان کے ساتھ جو نقل مکانی ہوئی وہ کوئی عام ’ہجرت‘ نہیں تھی۔ لاکھوں انسانوں نے متاع جاں ہتھیلی پہ لے کر آگ، خون اور موت کے سمندر کو عبور کیا اور سرحد کے دونوں طرف اس امید سے نقل مکانی کی کہ ان کی شب گزیدہ سحر گزر جائے گی۔

لیکن فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا ہے:

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غمِ دل

تقسیم اور ’ہجرت‘ پر سینکڑوں کہانیاں لکھی گئی اور کئی فلمیں اور ڈرامے بھی بنائے گئے جن کو بڑا پسند کیا گیا۔ سٹیلنی وولپرٹ، خوشونت سنگھ، عائشہ جلال، ڈاکٹر اشتیاق اور دوسرے کئی عالمی شہرت یافتہ ادیبوں نے اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں۔

چوں کہ 1947 میں پنجاب اور بنگال کا بٹوارا ہوا تھا لہٰذا ہجرت کی کہانیاں زیادہ تر انہیں علاقوں سے متعلق ہیں۔ ایسے میں لداخ اور کارگل جیسے دورافتادہ اور چھوٹے علاقوں سے کی گئی ہجرت اور اس سے جڑی مصائب کی کہانیاں کبھی بھی منظر عام پر نہیں آئیں، حالانکہ جن پر گزری ان کا دکھ کسی طرح پنجاب یا یوپی سے کم نہیں تھا۔

اس کی ایک بڑی وجہ ان ’مہاجرین‘ کا بلتستان، کراچی، کوئٹہ اور دیگر جگہوں پر ٹکڑیوں کی شکل میں بکھر کر آباد ہونا تھا۔ اس سے بھی اہم ان کے درمیان کوئی ایسا صاحب قلم بھی موجود نہیں تھا جو ان درماندہ لوگوں کے احساسات، جذبات اور قربانیوں کو لفظوں کا پیراہن دے سکے۔

یوں امید، تمنا، آزادی اور ہجرت کے انگنت واقعات سینے میں لے کر کئی لوگ پیوند خاک ہو گئے اور ان کی کہانیاں ان کہی رہ گئیں۔

شاید ان پر لکھنے والوں کا نام کبھی بھی منظر عام پر نہ آتا مگر تقدیر کو کچھ اور منظور تھا کہ 2017 میں رینگچن پرگ نامی ایک کارگل سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہری نے ماضی کے دھندلکوں سے ان سوختہ جاں مہاجرین کی کچھ کہانیاں کشید کر دیں اور شائع کیا۔

رنگچن پرگ کے نام کو سنتے ہوئے کچھ زیادہ دن نہیں گزرے ہیں۔ پچھلے مہینے کی بات ہے جب بشارت ساقی نے مجھے صدر راولپنڈی میں اپنے فون سکرین پر دو کتابوں کے سرورق دکھائے جو چونکا دینے والے تھے۔

ایک ’پرگ سکد‘ اور دوسری کتاب انگریزی میں Purigpa: Bloodline across the frontier تھی۔ اس کے بعد کافی کوشش کے بعد بالآخر رنگچن پرگ سے ہماری ملاقات ہو گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رنگچن کی پیدائش کراچی کی ہے جہاں ان کے والد اور خویش اقربا 1947 میں پرگ پشکم کارگل سے نقل مکانی کر کے شملہ کے راستے کراچی پہنچے اور وہیں بس گئے تھے۔ رنگچن نے ڈبل ماسٹر کیا ہوا ہے، نیز آرمی میں کپٹن بھی رہے ہیں لیکن آج کل کسی بین الاقوامی ادارے میں ایگزیکٹو پوزیشن میں ہیں۔ اب کچھ عرصہ پہلے کراچی چھوڑ کر اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔

انہوں نے از راہ محبت دو کتابیں عنایت کی جس میں سے ایک پرگ زبان کی ڈکشنری تھی جبکہ دوسری انگریزی والی کتاب میں کراچی اور کوئٹہ میں آباد پرگ کارگل مہاجرین کی کہانیاں ہیں جو آگ، خون اور آنسوؤں کا مرقع ہیں۔

میں نے جب ان سے پوچھا کہ انہیں یہ کیسے خیال آیا کہ ان پرگ والوں کی زبان محفوظ کرنا ضروری ہے تو وہ یکدم سنجیدہ ہو گئے۔ ان کے آنکھوں میں شاید وہ لمحات پھرنے لگے جب انہوں نے اس کام کا ڈول ڈالا تھا۔

رنگچن نے بتایا کہ جب وہ بین الاقوامی کمپنی میں کام کر رہے تھے تب ان کو شدت سے یہ خیال آیا کہ ہماری شناخت اور پہچان مٹتی جا رہی ہے۔ اپنے آبائی خطے سے تو ہم کٹ چکے تھے وہاں کا رسم و رواج معدوم ہو رہا تھا صرف پرکی زبان ہی شناخت کا واحد ذریعہ تھی وہ بھی ختم ہوتی جا رہی تھی کیونکہ گھروں میں اردو سرایت کر گئی تھی۔

بڑے بوڑھے جو 1947 کے دوران ہجرت کر کے آئے تھے وہ صرف اپنی زبان بولتے تھے مگر نئی نسل اس سے ناآشنا ہوتی چلی جا رہی تھی، لہٰذا رنگچن نے پہلے مرحلے میں بڑے بوڑھوں کے پاس بیٹھ کر پرگی زبان کی ایک لغت مرتب کی جسے اس نے ’پرگ سکد‘ کا نام دیا۔

یہ کام 2007 میں منصہ شہود پر آ گیا۔ اس ریسرچ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ آباؤ اجداد کی زبان کو انہی اصوات اور حروف کے ساتھ محفوظ کیا جائے جو 1947 کے اولین پرگ مہاجر ادا کرتے تھے۔ رینگچن پرگ کا کہنا تھا کہ گو وہ کوئی ماہر لسانیات نہیں تاہم اس نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ ان تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھیں جو اس کام کے لیے درکار ہیں۔

رینگچن کا علمی و ادبی سفر یہی پر نہیں رکا۔ اس کے اس کام کو بین الاقوامی طور پر سراہا گیا اور مشہور مستشرق رونالڈ بلمایر نے ان سے رابطہ کیا اور داد دی ساتھ ساتھ ’پرگ سکد‘ کی کئی کاپیاں یونیورسٹی جرمنی کے لیے منگوا لیا۔

رنگچن کو ڈکشنری مرتب کرنے کے دوران ہی خیال آیا کہ کیوں نہ پشکم کارگل سے ہجرت کر کے آنے والے اولین افراد کی کہانیاں بھی لکھی جائیں جو اس کے چاروں طرف بکھریں پڑی تھیں۔

رنگچن کا کہنا تھا کہ ان کا اپنا خاندان اور کئی دیگر لوگ جنہوں نے 1947 میں ہجرت کی تھی کراچی اور کوئٹہ میں مقیم تھے۔ ان میں سے ہر ایک کے سینے میں ایک ایک الگ کہانی محفوظ تھیں جس میں درد و غم اور جدائی کی پرچھائیاں بہت نمایاں تھی۔

وہ جس بھی محفل میں بیٹھتے، یہ کہانیاں ان کا پیچھا کرتیں۔ انہوں نے ہزار جتن کیے کہ ان سے صرف نظر کرے مگر یہ کہانیاں بار بار آکر اس کے سامنے کھڑی ہو جاتی تھی۔ تب اس نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ کہانیاں نہ صرف خود سنے گا بلکہ دنیا کے سامنے بھی لائے گا تاکہ سب کو معلوم ہو کہ ہجرت کے مصائب کیا ہیں اور ایک چھوٹی کمیونٹی

کس طرح اپنے شناخت کے بحران سے دوچار ہوتی ہیں۔

رنگچن پھر ہر اس شخص کے پاس گئے جو پہلے پہل ہجرت کرکے کراچی اور کوئٹہ پہنچا تھا اس ابتدائی گروپ کو اس نے پرگ والوں کی پہلی جنریشن کا نام دیا ہے۔

یوں 2017 میں Purigpa کتاب منظر عام پر آ گئی۔ یہ انگریزی میں لکھی گئی ہے جس کا پیش لفظ جان برے نامی محقق نے لکھا ہے جو لداخ و کرگل کی تہذیب وثقافت کے شناور ہیں اور انٹرنیشنل ایسوسیشن آف لداخ سٹڈیز IALS کے صدر نشین بھی ہیں۔

انہوں نے آغاز میں کیا خوب جملہ لکھا ہے کہ ’یہ خصوصی کتاب ان عام لوگوں کی کہانی بیان کرتی ہے جو غیر معمولی واقعات کی نذر ہو گئے۔‘

اور واقعتاً ایسا ہی تھا کہاں پرگ کارگل کے عام پہاڑی لوگ جو محنت مزدوری اور گھر والوں کے نان و نفقہ کے لیے گھر سے دور شملہ میں جان کوشی پر مصروف تھے اور کہاں تخت و تاج کی ریشہ دوانیاں جن سے وہ بالکل بے خبر تھے۔

اچانک برٹش انڈیا کے حکمرانوں کے قدم اکھڑ گئے انگریز اپنا بوریا بستر سمیٹ رہے تھے کہ ہندو مسلم تنازع ہر ایک کی جان کے درپے ہو گیا۔ ایسے میں ہمالیہ کی مغربی کنارہ کے یہ پریگ والے آزادی کے جوار بھاٹے میں تنکوں کی طرح ہر طرف بکھر گئے۔ اب تقدیر انہیں جہاں کھے کر لے جارہی تھی وہ اسی سمت میں بس بہے چلے جا رہے تھے۔

بالآخر جنون، دشمنی، نفرت اور آگ و خون کا سمندر تھم گیا برصغیر کے نقشے پر دو مملکتیں ظہور پذیر ہوئیں۔ اس غیر معمولی واقعے کی نذر ہونے والے پشکم کارگل کے یہ بے نوا مہاجر کراچی اور کوئٹہ میں جا کر آباد ہوئے جہاں اب ان کی نئی نسلیں پروان چڑھ رہی ہیں۔

ماضی کا یہ لاوہ اب راکھ بن گیا ہے جس سے کبھی کبھی یادوں کی ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں۔ رنگچن پرگ نے اسی راکھ سے اپنا رشتہ اور ماضی ڈھونڈ نکالا ہے جس میں جلن اور زخم ہی زخم صاف دکھائی دیتے ہیں۔

’پرگ پا‘ بظاہر دیکھنے میں درمیانی سائز کی تین سو صفحات پر مشتمل ایک عام کتاب ہے لیکن اس کے اندر جو کہانیاں ہے وہ احمد فراز کے اس شعر کی تفسیر نظر آتی ہیں۔

دیکھو یہ میرے زخم ہیں دیکھو یہ میرے داغ ہیں
میں نے تو سب حساب جاں برسر عام رکھ دیا

رنگچن پرگ کا کہنا ہے کہ شروع میں یہ پرگ والے کراچی شہر کے آخری کونے میں جہاں اب قائد اعظم کا مزار ہے وہاں رہائش پذیر ہوئے تھے۔ اس وقت یہ علاقہ زیادہ تر خالی تھا اور بعد ازاں اسی جگہ پر قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کو دفن کیا گیا تاہم 1959 تک کوئی گنبد یا بڑا مزار نہیں بنایا گیا تھا بلکہ سادہ سی قبریں تھیں۔

ابتدا میں ان قبروں کی عمومی رکھوالی پشکم کارگل سے آئے انہیں مہاجرین نے کی لیکن جب بعد ازاں یہاں حکومت پاکستان نے گنبد نما مزار بنانے کا فیصلہ کیا تو یہ پرگ والے مہاجر کورنگی، ڈرگ روڈ اور محمود آباد کی طرف منتقل ہوئے جس کے لیے بھی انہیں بڑی پریشانی اٹھانا پڑی۔

رنگچن پرگ نے کتاب میں پشکم کارگل سے شملہ اور بعد ازاں کراچی، راولپنڈی اور کوئٹہ ہجرت کرنے والوں میں سے صرف چند افراد کی کہانیاں منتخب کرکے شائع کی ہیں۔ تاہم ان کہانیوں میں ان تمام مہاجرین کا عمومی دکھ درد جھلکتا ہے جو اس غیر معمولی ہجرت کا حصہ تھے۔

یہ مہاجر کراچی کے قائد آباد، لاہور کے بیری احاطہ اور ناچیری کوئٹہ میں ٹکڑیوں کی صورت آباد ہیں۔

2013  میں رنگچن پرگ کو ہائیڈل برگ جرمنی میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی جہاں بین الاقوامی سطح کے 80 سے زائد مندوبین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں رنگچن پرگ کے کام کو سراہا گیا اور ان کی کئی اور ماہرین لسانیات اور مستشرقین سے دوستی بھی ہوئی۔

کتاب کے آغاز میں پرگ کے ایک مہاجر غلام عباس کا ایک جملہ دیا گیا ہے۔ مصنف جب اس کی صحت دریافت کرتا ہے تو کراچی میں رہائش پذیر یہ 91 سالہ بزرگ جواب دیتا ہے۔

’اب مجھے نیند نہیں آتی ہے۔‘

اور یہی بات غلام عباس نے کارگل میں اس وقت بھی کہی تھی جب 1937 میں وہ 13 سال کے تھے۔ ان کے والد نے کسی مجلس کے اختتام پر عباس کو اپنے بازوؤں سے جدا کر کے سونے کا حکم دیا تب بھی اس نے یہی جملہ کہا تھا کہ ’مجھے نیند نہیں آتی ہے۔‘

جدائی یا ہجرت چاہے بازوؤں سے ہو یا اپنی زمین سے یہ نیند اڑا دیتی ہے۔

مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ