نتن یاہو کے’ذاتی مفادات‘ فائر بندی کی کوششوں میں رکاوٹ ہیں: حماس

حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ وہ ایسا معاہدہ قبول نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں اسرائیلی جارحیت کا مکمل خاتمہ نہ ہو۔

25  جنوری، 2023 کی اس تصویر میں اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو اپنے اتحادی اور وزیرخزانہ بیزالیل سموتریچ کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے(اے ایف پی)

فلسطینی تنظیم حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ وہ ایسا معاہدہ قبول نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کا مکمل خاتمہ نہ ہو۔

انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو پر الزام عائد کیا کہ وہ ’ذاتی طور پر‘ معاہدے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق قطر، مصر اور امریکہ کے ثالثوں نے ہفتے کو قاہرہ میں حماس کے ایک وفد سے ملاقات کی جس کا مقصد تقریبا سات ماہ سے جاری اس تنازع کو روکنا تھا، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔

برطانیہ کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق انہیں اس تجویز پر عسکریت پسند گروپ کا ردعمل جاننا تھا جس کے تحت 40 روز تک لڑائی روک دی جائے گی اور فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اسرائیلی قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔

تاہم حماس کے ایک سینیئر عہدیدار نے ہفتے کی رات اس بات پر زور دیا کہ گروپ ایسی کسی بھی صورت میں فائر بندی پر متفق نہیں ہو گا جس میں غزہ سے اسرائیل کے انخلا سمیت جارحیت کا مکمل خاتمہ واضح طور پر شامل نہ ہو۔

عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان اسرائیلی کوششوں کی مذمت کی جن میں قیدیوں کی رہائی والے معاہدے میں غزہ پر جارحیت کے مکمل خاتمے کو شامل نہیں کیا جا رہا۔

انہوں نے نتن یاہو پر الزام عائد کیا کہ وہ ’ذاتی مفادات‘ کی وجہ سے فائر بندی کی کوششوں میں ’ذاتی طور پر رکاوٹ‘ ڈال رہے ہیں۔

قبل ازیں ایک اعلیٰ اسرائیلی عہدیدار نے حماس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ تنازع کے خاتمے کا اپنا مطالبہ ترک نہ کر کے’معاہدے کے امکان کو ناکام بنا رہے ہیں۔‘

کئی ماہ کی شٹل ڈپلومیسی کے باوجود ثالث اس طرح کی فائر بندی کروانے میں ناکام رہے ہیں جو گذشتہ سال نومبر میں ہوئی تھی۔ اس وقت اسرائیل کی جیلوں میں موجود فلسطینیوں کے بدلے حماس نے 105اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا تھا۔

اس سے قبل مذاکرات اس لیے تعطل کا شکار ہو گئے تھے کہ حماس دیرپا فائر بندی کے مطالبے اور نتن یاہو رفح میں گروپ کے مبینہ عسکریت پسندوں کو ختم کرنے کے عزم سے پیچھے نہیں ہٹے۔

اسرائیل نے ابھی تک قاہرہ میں اپنا وفد نہیں بھیجا۔ اسرائیلی عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ ایسا صرف اسی صورت میں کریں گے جب مجوزہ فریم ورک پر ’مثبت پیش رفت‘ ہوگی۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ ’حقیقی معاہدے کے لیے سخت اور طویل مذاکرات متوقع ہیں۔‘

حماس کے ایک سینیئر ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ مذاکرات اتوار کو دوبارہ شروع ہوں گے۔

غزہ کی  وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر کے بعد اسرائیلی کی جارحیت میں اس وقت تک کم از کم 34 ہزار 654 افراد جان سے جا چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی اور ہسپتالوں نے رفح اور شمال کے علاقوں میں اسرائیلی حملوں کی وجہ سے مزید اموات کی اطلاع دی ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی 70 فیصد سے زائد رہائشی عمارتیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہیں اور ان کی تعمیر نو کے لیے ایسی کوشش درکار ہو گی جو دوسری عالمی جنگ کے بعد نہیں دیکھی گئی۔

دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ  فائر بندی کا معاہدہ تسلیم کرنے میں حماس کو کوئی ’دقت‘ نہیں ہونی چاہیے، جو ’غزہ کے عوام اور فائر بندی کے درمیان واحد چیز ہے۔‘

رفح پر اسرائیلی حملے کے اعلان سے بین الاقومی برادری میں گہری تشویش پیدا ہو گئی ہے۔

حماس کے سینیئر عہدیدار نے ہفتے کو کہا کہ ’جارحیت روکنے کے بجائے رفح میں داخل ہونے پر اصرار کی مکمل ذمہ داری اسرائیل پر ہو گی۔‘

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کی نصف آبادی یعنی 12 لاکھ افراد رفح میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم گیبری ایسس نے خبردار کیا ہے کہ ’رفح میں مکمل فوجی آپریشن، خون ریزی کا سبب بن سکتا ہے۔‘

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان جینز لارکے نے کہا ہے کہ رفح پر حملہ امداد فراہم کرنے کی خاطر جدوجہد کرنے والی ایجنسیوں کے لیے ’تباہ کن دھچکا‘ ثابت ہو سکتا ہے۔

ادھر مصر کے القاہرہ نیوز، جو انٹیلی جنس سروسز سے منسلک ہے، نے ایک نامعلوم اعلیٰ سطحی ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ ’مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے‘ اور ثالث ’تنازعات کے زیادہ تر نکات پر متفقہ فارمولے پر پہنچ گئے ہیں۔‘

تاہم حماس کے سینیئر عہدیدار نے ہفتے کی رات کہا کہ مذاکرات ’کسی پیش رفت کے بغیر‘ آج کے دن کے لیے ختم ہو گئے ہیں۔

تاہم اسرائیل کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر اسرائیل موساد انٹیلی جنس سروس کے سربراہ ڈیوڈ برنیا کی سربراہی میں ایک وفد قاہرہ بھیجے تو اس میں پیش رفت کی علامت ہو گی۔

اسرائیل میں غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی وجہ سے سیاسی تناؤ میں اضافہ ہوا ہے، کچھ مظاہرین نے نتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ جارحیت کو طول دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مظاہرین باقاعدگی سے اسرائیلی سڑکوں پر ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت قیدیوں کو وطن واپس لانے کے لیے کوئی معاہدہ کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہفتے کو تل ابیب میں ہزاروں افراد نے ایک بار پھر احتجاج کیا ہے۔ مظاہرین نے نعرے لگائے کہ ’جنگ مقدس نہیں، زندگی مقدس ہے۔‘

اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ غزہ میں اب بھی 128 قیدی موجود ہیں جن میں سے 35 کے بارے میں فوج کا کہنا ہے کہ وہ مارے گئے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن پر داخلی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ نتن یاہو کی حکومت سے غزہ میں جارحیت کم کروانے کے لیے کردار ادا کریں۔

جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے 88 ارکان کانگریس کے دستخط والے ایک خط میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینی شہریوں کے لیے ’جان بوجھ کر امداد روکنے‘ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ان ارکان نے صدر بائیڈن پر زور دیا گیا کہ جب تک اسرائیل کا طرز عمل تبدیل نہیں ہوتا وہ ہتھیاروں کی فروخت روکنے پر غور کریں۔

امریکہ کے اصرار پر اسرائیل نے حالیہ دنوں میں غزہ میں مزید امداد کی فراہمی میں سہولت فراہم کی ہے لیکن اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ اس سے قحط کو روکا نہیں جا سکا۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کی سربراہ سنڈی میک کین نے جمعے کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’غزہ کے شمالی حصے میں پہلے ہی شدید قحط ہے اور یہ جنوب کی جانب بڑھ رہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا