10 مئی کو جلائی گئی ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت بحالی کی منتظر

دفاتر میں جلی میزوں کے سامنے جلی ہوئی کرسیاں اسی حالت میں موجود تھیں اور اس کو ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا۔

شام کا وقت تھا۔ پانچ منزلہ تاریخی عمارت سے اٹھنے والے آگ کے شعلے اتنے بلند تھے کہ کئی میل دور سے بھی نظر آ رہے تھے۔ عمارت کے آس پاس کی فضا دھویں سے بھر گئی تھی۔ 

ریسکیو 1122 کی گاڑیاں عمارت کے اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھیں کہ آگ پر قابو پایا جا سکے لیکن شعلوں کی شدت اتنی تھی کہ گاڑیاں اندر داخل نہیں ہو پا رہی تھیں۔

جتنی شدت آگ کے شعلوں میں تھی، اتنا ہی اشتعال مظاہرین میں بھی تھا، جو کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے مرکزی دروازہ توڑ ڈالا تھا اور عمارت کے احاطے میں کھڑے تین گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔

یہ منظر گذشتہ سال 10 مئی کو خیبر پختونخوا اسمبلی کے سامنے ریڈیو پاکستان کے پشاور مرکز کی تاریخی عمارت کا ہے جس کو مشتعل مظاہرین نے آگ لگائی تھی۔ 

نو اور 10 مئی کو پشاور سمیت ملک بھر میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مظاہرے کیے تھے اور بعض جگہوں پر مظاہرین مشتعل ہو گئے تھے۔ 

ریڈیو پاکستان پشاور کے باہر احتجاج کرنے والوں نے بےقابو ہو کر عمارت کے اندر داخل ہو گئے اور مختلف دفاتر، ریکارڈ روم، فرنیچر اور دیگر سامان کو ماچس دکھا دی۔ 

دوسری جانب تحریکِ انصاف کی جانب سے مشتعل مظاہرین سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کیا گیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ان کے مظاہروں میں موجود شرپسند عناصر تھے۔

 تاہم ملک بھر میں مشتعل مظاہرین کی جانب سے جلاؤ گھیراؤ کے مختلف مقدمات میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو نامزد کیا گیا تھا۔ 

اس سال بعد انڈپینڈنٹ اردو نے ریڈیو پاکستان کی عمارت کا دورہ کیا تو دیکھا کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود عمارت کی تزئین و آرائش نہیں کی گئی اور اس میں خاکستر سامان بکھرا پڑا ہے جبکہ دیواریں ایسی ہیں جیسے ان پر سیاہ رنگ پھیر دیا گیا ہو۔ 

انہیں دیواروں پر ریڈیو پاکستان کے سابق عہدیداروں کی تاریخی تصویریں چسپاں تھیں، لیکن اب صرف فریم ہی رہ گئے تھے اور تصویریں رزقِ آتش ہو گئیں۔ 

پہلی منزل سے لے کر پانچویں تک تمام منزلوں میں موجود دفاتر آگ کی لپیٹ میں آ گئے تھے اور وہاں پر ایک سال بعد بھی تاریخی ریکارڈ کچرے کی ڈھیر کی طرح پڑا اب بھی نظر آرہا ہے۔ 

دفاتر میں جلی ہوئی میزوں کے سامنے جلی ہوئی کرسیاں اسی حالت میں موجود تھیں اور اس کو ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا تھا۔ 

دفاتر کے مناظر یوں نظر آ رہے ہیں جیسے عمارت میں بم پھٹا ہو۔

جب نشریات رک گئیں 

جب مشتعل مظاہرین ریڈیو پاکستان کی عمارت کو آگ لگا رہے تھے، تو اسی دوران نشریات بھی جاری تھیں لیکن آگ کی وجہ سے کچھ وقت کے بعد بجلی کی تاریں جل گئیں جس کی وجہ سے نشریات معطل ہو گئیں۔ 

یہ اس تاریخی عمارت کی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب بغیر کسی وجہ کے نشریات 26 گھنٹے معطل رہیں۔ 

ریڈیو پاکستان پشاور مرکز کے سٹیشن ڈائریکٹر محمد طفیل نے انڈپینڈنٹ اردو بتایا کہ اس عمارت میں موجود  قیمتی اثاثے کو جلایا گیا ہے جس میں مختلف ریکارڈز بھی شامل ہے۔ 

انہوں نے بتایا، ’ہم نے اس وقت مظاہرین کی منتیں کی تھیں کہ اس قیمتی اثاثے کو نہ جلایا جائے، لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں تھا۔ عمارت کے مرکزی دروازے پر چاغی کی یادگار بھی جلا دی گئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ اس دن نشریات 26 گھنٹوں تک معطل رہی لیکن پاکستان فوج اور ریڈیو پاکستان کی انجینیئرنگ شاخ نے 26 گھنٹوں کے اندر نشریات دوبارہ بحال کر دیں۔ 

خوش قسمتی سے ریڈیو پاکستان کی عمارت میں سٹوڈیوز بیسمنٹ میں واقع ہیں، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر سٹوڈیوز اور ٹرانسمیٹرز کو نقصان نہیں پہنچا تھا، یہی وجہ ہے کہ  اور نشریات کو جلد بحال کر دیا گیا۔ 

پاکستان کا پہلا ریڈیو سٹیشن

ریڈیو پاکستان کی تاریخ جتنی پرانی ہے اتنی ہی دلچسپ بھی ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کا سب سے قدیم ریڈیو سٹیشن ہے بلکہ برصغیر کے چند گنے چنے اولین سٹیشنوں میں بھی شمار ہوتا ہے۔

اس کے قیام کی کہانی اپنی جگہ بےحد منفرد ہے۔

معروف مورخ خرم علی شفیق کی تحقیق کے مطابق جب 1931 اور 1933 میں لندن میں گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں تو ان میں خیبر پختونخوا کے علاقے صوابی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان صاحبزادہ عبدالقیوم خان نے اپنے صوبے کی نمائندگی کی۔ انہوں نے اس سے قبل 1893 میں انگریزوں اور افغانستان کے امیر کے درمیان ہونے والے ڈیورنڈ لائن کے معاہدے میں مذاکرات میں مدد دی تھی اور وہ 1937 میں اس وقت کے شمالی مغربی سرحدی صوبے کے پہلے وزیرِ اعلیٰ بھی منتخب ہوئے۔ عبدالقیوم خان ہی پشاور کے تاریخی اسلامیہ کالج کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔

عبدالقیوم خان کو برطانیہ میں منعقد ہونے والی گول میز کانفرنسوں میں شرکت کے موقعے پر اس زمانے کے لحاظ سے ایک انوکھی ایجاد یعنی ریڈیو سننے کا موقع ملا جو حال ہی میں برطانیہ میں متعارف ہو کر مقبول ہو رہا تھا۔

عبدالقیوم خان نے ریڈیو کے موجد مارکونی سے ملاقات کر کے ان سے درخواست کی کہ وہ شمالی مغربی سرحدی صوبے کے لیے ایک ریڈیو ٹرانسمیٹر فراہم کریں۔

1936 میں مارکونی نے خان عبدالقیوم سے کیے گئے وعدے کے تحت پشاور کے لیے ایک ریڈیو ٹرانسمیٹر بنا کر عطیہ کر دیا۔ تاہم یہ برصغیر کا پہلا ریڈیو سٹیشن نہیں ہے، کیوں کہ اس سے کچھ ہی ماہ پہلے 1936 میں برٹش راج نے دہلی میں ریڈیو سٹیشن قائم کر لیا، ساتھ ہی انہوں نے عبدالقیوم کو 30 ریڈیو سیٹس بھی بطور تحفہ بھجوائے، جنہیں اس دور کے خانوں اور سرداروں کے حجروں میں رکھوا دیا گیا، جہاں مقامی لوگ جمع ہوتے تھے اور موسیقی کے پرواگراموں، خبروں اور ڈراموں سے محظوظ ہوتے تھے۔

1937 میں آل انڈیا ریڈیو کے رسالے ’لسنرز‘ میں ریڈیو پشاور کی نشریات کا شیڈیول دیکھا جا سکتا ہے جس کے مطابق یہاں سے نعتیں، قوالیاں، بھجن، کلاسیکی موسیقی کے پروگرام نشر کیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ پشتو زبان میں ٹاک شوز بھی پیش کیے جاتے تھے۔

ریڈیو پاکستان پشاور اپنی تاریخ کے دوران کئی عمارتیں بدل چکا ہے۔ موجودہ عمارت 1985 میں مکمل ہوئی تھی۔ یہاں جو مشہور شخصیات وابستہ رہی ہیں ان میں سمندر خان سمندر، قلندر مہمند، احمد ندیم قاسمی، ن م راشد، احمد فراز، اجمل خٹک، خاطر غزنوی، محسن احسان، فارغ بخاری، جیسے ادیب اور شاعر اور منیر سرحدی، استاد فضل ربی، احمد خان، زرسانگہ، گلزار عالم، خیال محمد، جی ایم درانی، معشوق سلطان، مہ جبین قزلباش، قمر گلہ، سردار علی ٹکر وغیرہ جیسے فنکار شامل ہیں۔ 

ریڈیو پاکستان میں کام کیسے چل رہا ہے؟ 

ریڈیو پاکستان کی پانچوں منزلیں اگر ویران ہیں تو پھر کام کیسے چل رہا ہے؟ اس کے جواب میں ایک ملازم نے بتایا کہ کام بالکل چل رہا ہے اور اس مقصد کے لیے ہم نے گراؤنڈ فلور کی صفائی کی ہے۔ 

جس ملازم سے ہم بات کر رہے تھے، تو انہوں نے دیواروں کو اپنی مدد آپ کے تحت دوبارہ پینٹ کیا ہے۔ 

انہوں نے کھڑکیوں کے ٹوٹے ہوئے شیشوں کی جگہ پلاسٹک چپکا دیا ہے تاکہ گردو غبار اندر نہ آسکے جبکہ ادھر ادھر سے کچھ بچی کرسیاں اٹھا کر بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی ہوئی ہے۔ 

کچھ ملازمین پولیس کے لیے عمارت کے اندر بنے بیرک میں بیٹھے کام کر رہے ہیں جبکہ بیسمنٹ میں موجود بچے ہوئے دفاتر کو ملازمین استعمال کرتے ہیں۔

عمارت سے بچا کھچا تاریخی مواد کیوں نہیں اٹھایا جا سکا؟

اس حوالے سے ریڈیو پاکستان کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ چونکہ اس واقعے کا مقدمہ درج ہو چکا ہے اور مختلف تحقیقاتی ادارے تفتیش کر رہے ہیں اس لیے کسی چیز کو چھونا مقدمے پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ایسے واقعات میں کسی بھی چیز کو اپنی جگہ سے بھی نہیں ہلایا جا سکتا، اور جب تفتیش مکمل ہو جائے تو عمارت کو دوبارہ بحال کیا جائے گا۔ 

سٹیشن ڈائریکٹر محمد طفیل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے اس عمارت کی بحالی کا وعدہ کیا ہے اور آئندہ بجٹ میں اس کو ترقیاتی کاموں کے منصوبوں میں شامل کیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان