نوجوان نسل فون کالز سے بھاگتی کیوں ہے؟

قیمتوں کا موازنہ کرنے والی ویب سائٹ ’یوسوئچ‘ کی جانب سے دو ہزار افراد پر کیے گئے سروے کے مطابق 18 سے 34 سال کی عمر کے ایک چوتھائی افراد کو جب ٹیلی فون کال کی جاتی ہے تو وہ کبھی جواب نہیں دیتے۔

ویب سائٹ ’یوسوئچ‘ کی جانب سے دو ہزار افراد پر کیے گئے سروے میں شامل تقریباً 70 فیصد افراد نے کہا کہ وہ فون کال کی بجائے ٹیکسٹ میسج کو ترجیح دیتے ہیں (پیکسلز)

کسی زمانے میں آپ کے فون کی گھنٹی بجنے کی آواز جوش و خروش پیدا کرتی تھی۔ لیکن اب؟ کم از کم اگر آپ نوجوان ہیں تو اس صورت میں اس سے محض خوف پیدا ہوتا ہے۔

قیمتوں کا موازنہ کرنے والی ویب سائٹ ’یوسوئچ‘ کی جانب سے دو ہزار افراد پر کیے گئے سروے کے مطابق 18 سے 34 سال کی عمر کے ایک چوتھائی افراد کو جب ٹیلی فون کال کی جاتی ہے تو وہ کبھی جواب نہیں دیتے۔

سروے میں جواب دینے والوں نے وضاحت کی کہ فون کی گھنٹی کی آواز سن کر وہ عام طور پر اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔

دوسرے افراد کا کہنا تھا کہ وہ کال کرنے والے کا نمبر گوگل پر سرچ کریں گے یا کال کرنے شخص کو جواب میں فون کرنے کی بجائے انہیں تحریری پیغام بھیجیں گے۔

سروے میں شامل تقریباً 70 فیصد افراد نے کہا کہ وہ فون کال کی بجائے ٹیکسٹ میسج کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ 37 فیصد نے صوتی نوٹ کی حمایت کی۔ دریں اثنا نصف سے زیادہ نے اعتراف کیا کہ غیر متوقع کال کی وجہ سے انہیں ماننا ہوگا کہ انہیں کوئی بری خبر ملنے والی ہے۔
یہ ایک ایسی صورت حال ہے جسے میں نے کئی بار دیکھا۔ میری عمر (29 سال) کے لوگ بس فون استعمال کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ہم شاید ہی کبھی اسے بات کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس لیے ہم اسے باکل نیا نام بھی دے سکتے ہیں۔

ابھی پچھلے ہفتے، میں نے ایک دوست کو میسج کیا: ’کیا میں آپ کو کال کر سکتی ہوں؟‘ میں نے انہیں یہ میسج اس لیے کیا کہ میں اچانک کال سے انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔

دوست نے فوراً جواب دیا کہ ’یہ سب سے خوفناک پیغام ہے جو آپ کبھی بھیج سکتی تھی۔‘
ہمارے درمیان کال نہیں ہوئی۔ کیوں کہ دوسرے شخص کے لیے یہ آئیڈیا خوف کا سبب تھا۔ لہذا اس کی بجائے ہم نے ایک دوسرے کو واٹس ایپ پیغامات اور صوتی نوٹ بھیجے۔

بالکل اسی طرح کچھ دن بعد ایک دوست نے مجھے فون کیا اور میں جواب دینے کی بجائے اسے اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک کہ وہ بند نہیں ہو گیا۔ میں نے بعد میں دوست کو میسج کیا اور ان کی فون نہ سننے پر ان سے معذرت کی۔ مجھے یقین نہیں کہ کیوں۔ میں خود کو تنہا محسوس کر رہی تھی اور بات چیت کر سکتا تھی لیکن اس خاص لمحے پر فون پر بات کرنے کی وجہ پیدا ہونے والی بے چینی تنہائی کے احساس سے زیادہ طاقتور تھی۔ ہمارے ساتھ کیا غلط ہے؟

24  سالہ علی کورسن کہتے ہیں کہ ’جب بھی مجھے کسی جاننے والے کا فون آتا ہے تو میرے دل کی دھڑکن میں وقفہ آ جاتا ہے۔‘
’میرے خیال میں یہ جنریشن زی (1990 کی دہائی سے لے کر 2010 تک پیدا ہونے والے) افراد اور شاید دوسری نسلوں کے لیے معمول کی بات ہے جو ٹیکسٹ میسیج کرتے ہوئے بڑی ہوئی ہیں۔ یہ ہر وقت جڑے رہنے کا خوبصورت انداز ہے لیکن جب جواب دینا آسان ہو۔ فون کال عام طور پر کسی ایسی بات کے لیے ہوتی ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہو۔‘

بات صرف نوجوان لوگوں کی ہی نہیں ہے۔ 47 سالہ شیرون اولیورو چیپ مین کہتی ہیں کہ ’میں کبھی کسی شخص کو اچانک کال نہیں کروں گی بالکل اسی طرح جیسے میں غیر اعلانیہ طور پر ان کی رہائش گاہ پر نہیں جاؤں گی۔ یہ ان کی پرائیویسی اور وقت کا احترام نہیں ہو گا۔
’اگر کوئی مجھ سے کاروبار کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے، تو میں بات چیت کے لیے دن اور وقت طے کروں گی۔ یہ محض تمیز کا معاملہ ہے۔ جہاں تک دوستوں اور خاندان کا تعلق ہے، یہ پوچھنے کے لیے کہ آیا ان کے پاس بات کرنے کے لیے وقت ہے، فوری ٹیکسٹ میسج بھی بالکل ضروری ہے۔ مجھے اس وقت واقعی کوفت ہوتی ہے جب لوگ اطلاع دیے بغیر یکے بعد دیگرے مجھے فون کالز کرتے ہیں۔‘

اس ہچکچاہٹ کی زیادہ تر وجہ ہماری بڑھتی ہوئی آن لائن ثقافت کا نتیجہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی بدولت رابطے کے کچھ طریقے کو معمول پر آئے ہوں لیکن اس نے رابطے کے دوسرے طریقوں کو فرسودہ اور غیر مقبول بھی بنا دیا ہے۔
ماہر نفسیات اور تعلقات کی مشیر باربرا سینٹینی کہتی ہیں کہ ’یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ فون پر بات چیت سے دوری صرف ترجیح کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس سے وسیع تر سماجی تبدیلیوں اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ڈیجیٹل مواصلاتی پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا کے عروج کے ساتھ ، لوگوں کو فوری پیغام رسانی، ویڈیو کالز اور سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس تک بے مثال رسائی حاصل ہے۔ یہ پلیٹ فارمز سہولت، رسائی اور باہمی رابطے کا احساس پیش کرتے ہیں، جس کی بدولت وہ روایتی فون کالز کا تیزی سے ترقی کرتا پرکشش متبادل بن گئے ہیں۔‘

یہ سچ ہے۔ ٹیکسٹ میسج فون پر بات کرنے سے زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ اس بات پر غور کرسکتے ہیں کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ آپ اسے بہترین ممکنہ طریقے سے بیان کریں۔
یہ عمل تنازعات کے حل میں خاص طور پر مددگار ثابت ہوسکتا ہے، جس سے آپ کو کسی ایسے شخص کے سامنے اپنی بات کرنے کے لیے کافی وقت اور موقع ملتے ہیں جنہوں نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہو یا پریشان کیا ہو۔ قصہ مختصر یہ کہ اس ضمن میں بڑا مسئلہ بھی موجود ہے۔ بعض لوگوں کے لیے متن کا پیراگراف فون کال کی طرح بے حد پریشان کن ہو سکتا ہے جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے۔

واٹس ایپ جیسے فوری پیغام رسانی کے پلیٹ فارمز پر صورت حال اور بھی بدتر ہے۔ یہ پلیٹ فارم زیادہ بے ساختہ ہوتے ہیں اور اکثر آپ کو آپ کی لوگوں کے رابطے کے انداز تک زبردست رسائی کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ موصول شدہ پیغامات پڑھیں، ’آخری بار دیکھے گئے ‘ کے نوٹیفکیشن اور اسی طرح کی خصوصیات ہمارے لیے معلومات کی بھرمار ہو جاتی ہے جس کی ہمیں ضرورت نہیں ہے اور جب ہم صرف فون پر بات کر رہے ہوتے ہیں تو اس سے ہم بچ جائیں گے۔

آیورویدک طریقہ علاج سے کام لینے والی اور مصنفہ سونجا شا ولیمز کہتی ہیں کہ ’ٹیکسٹنگ غیر جذباتی عمل ہے اور اس کی غلط تشریح کی جا سکتی ہے۔

’یہ ہمیں اس انداز اور اس میں چھپے مفہوم کو سمجھنے سے روکتی جس سے کام لیتے ہوئے کوئی بات کی جاتی ہے۔ آواز کو سننا اور اسے بات چیت میں استعمال کرنا بہت اہم بات ہے کیوں کہ لہجہ اور انداز اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بات کرنے والا شخص کون ہے اور اس سے واقفیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ بات کرنے کے انداز کی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ کیا بات کر رہا ہے اور پیچھے کا حقیقی مطلب کیا ہے۔‘

شاید فون کال کی وجہ سے ہمارا خوف بلاجواز ہے۔ اس بارے میں سوچیں کہ آپ نے کسی کے بھیجے گئے پیغام کو کتنی بار غلط سمجھا۔ میں 10 میں سے نو بار شرط لگاؤں گی کہ کوئی پیغام فون پر زیادہ آسانی سے پہنچایا جاسکتا تھا۔ اور، ہاں، ایسا کرنا زیادہ اعصاب شکن ہوسکتا ہے کیوں کہ آپ کو لوگوں کے ساتھ بے ساختہ بات کرنی ہوگی، لیکن اس سے آپ کو کہیں زیادہ واضح طور پر، نرمی سے اور غلط مطلب لیے جانے کی گنجائش کے بغیر بات کرنے کا موقع ملے گا۔

سنٹینی کے بقول: ’اگرچہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم تیزی سے پیغامات کے تبادلے کی سہولت فراہم کرتے ہیں، لیکن ان میں اکثر آمنے سامنے بیٹھ کر یا آواز پر مبنی بات چیت کی گہرائی اور طاقت کا فقدان ہوتا ہے۔
’فون پر ہونے والی بات چیت سے لہجے، بات کرنے کے انداز، توقف اور اتارچڑھاؤ کا موقع ملتا ہے جن کی بدولت جذباتی اشارے پہنچائے اور ہمدردی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے برعکس، متن پر مبنی پیغامات سیاق و سباق کے ان اشاروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے غلط تشریحات یا غلط فہمیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔‘

اس بات کا آپ کے خیال سے کہیں زیادہ گہرا اثر ہوتا ہے۔ ایسی بات چیت کرنے سے جو صرف سطحی نوعیت کی ہو یا براہ راست گفتگو اور فون پر بات چیت کی صورت میں لازمی ہے کہ آپ کے تعلقات پر زد پڑے گی۔

سنٹینی کہتی ہیں کہ ’فون پر بات چیت سے گریز کرنا وقت کے ساتھ ساتھ تعلقات کے معیار کو خراب کر سکتا ہے اور سماجی تنہائی اور علیحدگی کے احساسات میں اضافہ کر سکتا ہے۔‘
یہ بات عجیب محسوس ہو سکتی ہے۔ یقینی طور پر مسلسل ٹیکسٹ پیغامات بھیجنے کا عمل رابطے کی راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے اسے فروغ دے رہا ہے؟ یہ صورت حال اتنی سادہ نہیں ہے۔

2020 میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ آن لائن مواصلات کے اصل میں منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جن کے نتیجے میں ’معلومات کا حد سے زیادہ اظہار‘ ہو سکتا ہے جو لوگوں پر ’گنجائش سے زیادہ وزن‘ ڈال سکتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، جتنا زیادہ آپ کسی کو ٹیکسٹ میسیج کرتے ہیں ، اتنا ہی زیادہ آپ اسے اپنے سے دور کر سکتے سکتے ہیں۔ ذات تک محدود رہنے والوں کو فون پر گفتگو خاص طور پر مشکل بھی محسوس ہو سکتی ہے۔

سنٹینی کا کہنا ہے کہ ’متن پر مبنی رابطے کنٹرول اور فاصلے کا احساس فراہم کرتے ہیں جس سے لوگوں کو فوری بات چیت کے دباؤ کا سامنا کیے بغیر احتیاط سے اپنے خیالات اور جوابات کو ترتیب دینے کا موقع ملتا ہے۔
’اگرچہ یہ عمل مختصر مدت میں اضطراب کم کرسکتا ہے ، لیکن یہ ضروری مواصلاتی مہارتوں کے فروغ میں بھی رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔ مثال کے طور پر براہ راست سننا، ہمدردی اور اپنی بات پر زور۔‘

یہ ایسی صورت حال ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک محسوس کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ تو پھر ہم کس طرح اس فون کالز کو واپس لا سکتے ہیں اور رابطے کی اپنی مہارت کو بہتر بنا سکتے ہیں، اپنے آپ کو کم الگ تھلگ محسوس کرتے ہوئے۔ جب بھی فون کی گھنٹی بجتی ہے تو کیا یہ صرف مسکرانے اور برداشت کرنے کا معاملہ ہوتا ہے یا اس عمل میں کچھ گہرائی پائی جاتی ہے؟

زبان سیکھنے کے پلیٹ فارم بابل کے لسانی ماہر نوئل وولف کا کہنا ہے کہ ’ابتدا میں اپنے قریبی دوستوں اور اہل خانہ کو مشق کے لیے فون کال کرنا آپ کے اندر اعتماد پیدا کرنے اور آپ کو فون کال کرنے کا زیادہ عادی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔‘

سوچ سمجھ کر ٹیلی فون کال سے پہلے، آپ کچھ نوٹ بنا کر پیشگی تیاری کی کوشش کرسکتے ہیں۔ وولف کہتے ہیں کہ ’اس سے آپ کو زیادہ کنٹرول محسوس کرنے اور اضطراب کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
’اس کے ساتھ ہی کوشش کریں کہ اپنے جوابات پر ضرورت سے زیادہ غور نہ کریں اور اس کی بجائے اس بات پر توجہ مرکوز کریں کہ دوسرا شخص کیا کہہ رہا ہے۔ بغور سننے سے آپ کو بات چیت میں مصروف رہنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘

اب بھی قائل نہیں ہوئے؟ اگلی بار جب آپ تھوڑا سا تنہا محسوس کریں تو، ٹیکسٹ میسج بھیجنے کی بجائے اپنے اندر ٹیلی فون کال کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔

دوسرا شخص شروع میں پریشان ہوسکتا ہے لیکن تھوڑی دیر کے بعد، ممکن ہے کہ آپ اپنے آپ کو ان کے ساتھ کئی سال میں بہترین بات چیت کرتا ہوا پائیں۔ کون جانتا ہے؟ شاید وہ شخص تنہائی محسوس کر رہے تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل