پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاجی تحریک کا سال مکمل

پاکستان کے زیر اہتمام کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے ایک بار پھر اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے 11 مئی کو احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں احتجاج کے طور پر مظاہرین بجلی کے بل جلا رہے ہیں (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آٹھ مئی 2023 کو سستی بجلی اور سبسڈائز آٹے کے حصول کے لیے شروع ہونے والی تحریک کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے اور یہ تحریک ابھی جاری ہے۔

مطالبات کے حصول کے لیے شروع ہونے والی تحریک کے دیگر ڈویژنز میں پھیلنے کے بعد آٹھ اگست 2023 کو احتجاجی تحریک کی سربراہی کے لیے 30 رکنی فیصلہ ساز کمیٹی بنائی گئی اور اس کے تحت احتجاجی تحریک شروع کی گئی تھی۔

اس تحریک کے دوران آٹھ اگست 2023 سے لے کر اب تک پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے رہائشیوں نے 10 اضلاع میں بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔

سیکرٹری برقیات ارشاد قریشی کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق: بجلی کی بلوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے اب تک گھریلو تین ارب 25 کروڑ جبکہ ایک ایک ارب آٹھ روپے کمرشل بلوں کے واجبات ادا نہیں کیے گئے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سیکرٹری برقیات نے بتایا کہ ’حکومت کی جانب سے بجلی بلات میں جون 2023 کے بعد آنے والے اضافی ٹیرف کو عوامی احتجاج اور ایکشن کمیٹی کے مطالبے پر فریز کر دیا گیا تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام کو حکومت کی جانب سے یہ آفر دی گئی ہے کہ وہ اپنے بقایا بجلی بلات کو قسط وار جمع کروا سکتے ہیں جبکہ کسی بھی صارف کا بجلی کنکشن منقطع نہیں کیا جائے گا۔

مگر دوسری جانب عوامی ایکشن کمیٹی نے حکومت کی جانب سے دی گئی اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

عوامی ایکشن کمیٹی کا مطالبہ ہے پیدواری لاگت پر بجلی فراہم کی جائے اور اس مطالبے کی منظوری تک بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان کئی بار مذاکرات کے دور ہوئے مگر تمام تر ناکام اور بے نتیجہ رہے۔

جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رکن اور کشمیر کی انجمن تاجران کے مرکزی صدر شوکت نواز کے مطابق 30 ستمبر 2023 کو احتجاج کی کال دینے کے بعد ایکشن کمیٹی کے رہنماوں کے خلاف 31 کیسز مظفرآباد، پلندری آٹھ، راولاکوٹ 32، باغ 10، ناڑ شیر علی تین، میرپور 17،کوٹلی 19 اور ڈڈیال میں 23 کیسز درج کیے گئے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماوں سمیت 74 کارکنان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ جن میں سے 43 کو 16 ایم پی او کے تحت رہائی ملی، جبکہ دیگر کو عدالت سے ضمانت پر رہائی دی گئی جن کے خلاف مقدمات تاحال درج ہیں۔‘

اس کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب پانچ فروری کو ایک بار پھر احتجاج کی دی گئی جو حکومت کے مذاکرات کے اعلان کے بعد عوامی ایکشن کی جانب سے واپس لے لی گئی۔

مذاکرات کے دوران پیداوری لاگت پر بجلی کی فراہمی کے علاوہ دیگر آٹھ نکات کو تسلیم کیا گیا اور محکمہ سروسز کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کر کے حکومت نے یقین دلایا کہ ایک ماہ کے اندر اس پر عمل کر لیا جائے گا۔

جبکہ پیداواری لاگت پر بجلی کی فراہمی کے لیے حکومت کی جانب سے وقت مانگا گیا اور اس وقت تک عوامی ایکشن کمیٹی نے بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

اس معاہدے کو تین مہینے کا وقت گزرنے کے بعد اب دوبارہ 11 مئی کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے ریاست گیر احتجاج کی کال دی گئی جس میں میرپور ڈویژن اور پونچھ ڈویژن سے مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کرنے اور قانون ساز اسمبلی کا گھیراؤ کرنے اعلانات کیے گئے ہیں۔

 شوکت نواز  نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے پانچ فروری کو دی گئی کال اس شرط پر واپس لی گئی تھی کہ انہیں دیے گئے حکومتی نوٹیفیکیشن پرایک مہینے کے اندر عملدرآمد شروع کیا جائے گا جو کہ نہیں کیا گیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’عوامی ایکشن کمیٹی کا اہم ترین مطالبہ پیدواری لاگت پر بجلی کی فراہمی کے لیے ریٹ کا تعین بھی تاحال حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے اور نہ ہی اس وقت تک حکومت نے اس پیدواری لاگت کے تعین کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شوکت نواز نے بتایا کہ ’حکومتی مصالحتی کمیٹی کے سربراہ فیصل ممتاز کو کئی بار مکتوب تحریر کیے گئے مگر ان کی جانب سے مناسب جواب نہیں ملا جس کے بعد ہمارے پاس آخری راستہ پرُامن احتجاج ہی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایسی صورت حال میں کسی عوامی احتجاج کو روکنے کے لیے نیم فوجی دستوں کو کشمیر میں تعینات کرنے کے تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں۔‘

شوکت نواز نے کہا: ’ایک پر امن احتجاج کو روکنے کے لیے اس وقت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس بھی فلیگ مارچ اور مشقیں کر رہی ہے اور عوام میں خوف حراس پھیلایا جا رہا ہے جو کسی صورت میں مناسب نہیں۔‘

عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات

بجلی کی پیداواری لاگت پر فراہمی
آٹا سبسڈی
کشمیر بینک شیڈولنگ
طلبہ یونینز کی بحالی
بلدیاتی نمائندگان کا فنڈز کی ترسیل
موبائل سیلولرز کمپنیوں سروس اور پی ٹی اے کے معاملات
رٹھوعہ ہریام برج کی تعمیر
اشرافیہ کی مراعات کو ختم کرنا

اس حوالے سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایف سی اور پی سی کی تعیناتی کے حوالے سے حکومتی موقف انتہائی واضح ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں منگلا ڈیم، نیلم جہلم، جاگراں، گلپور سمیت کئی بڑے پراجیکٹس موجود ہیں، جن میں غیر ملکی انجینیئرز بھی کام کر رہے ہیں۔

’غیر ملکی انجینیئرز پر ہوئے حالیہ حملوں کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے اسلام آباد سے یہاں موجود آبی وسائل کے منصوبوں کی حفاظت کے لیے ایف سی اور پی سی کی فراہمی کی درخواست کی تھی، جسے قبول کرتے ہوئے دونوں فورسز فراہم کی گئیں۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ ان فورسز کو کسی عوامی احتجاج کو روکنے کے لیے نہیں بلایا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان