مودی کا بیان اسلاموفوبیا کی بہترین مثال: اسدالدین اویسی

اسد الدین اویسی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’مودی کا مسلمانوں کے خلاف بیان نہ صرف مذمت کے قابل ہے بلکہ وہ لوگوں کو پیغام بھی دیتا ہے کہ مودی 2002 کے گجرات کے چیف منسٹر ہیں۔‘

انڈیا میں عام انتخابات کے دوران حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے مسلمان مخالف بیانات کے ردعمل میں رکن پارلیمان اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ مودی کا بیان اسلامو فوبیا کی بہترین مثال ہے۔

انڈیا کے ان عام انتخابات کو دنیا کے سب سے بڑے انتخابات کہا جا رہا ہے، جن کے تین مرحلے ہو چکے ہیں اور پانچ مراحل باقی ہیں جو یکم جون تک مکمل ہو جائیں گے۔

حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ’اب کی بار 400 پار‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے مرکز میں حکومت بنانے کی امید رکھتی ہے، تاہم بی جے پی کو سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کانگریس سمیت دیگر علاقائی اور قومی جماعتیں متحد ہو کر بی جے پی کے خلاف الیکشن لڑ رہی ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی اگر اقتدار میں آئی تو آئین میں ترمیم کرکے اقلیتی برادریوں کی کئی آزادیاں سلب ہونے کا خدشہ ہے۔

الیکشن کے اس موسم میں بی جے پی اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنما انتخابی ریلیوں میں ایک دوسرے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد بی جے پی کی حکمت عملی پوری طرح سے بدل گئی ہے اور وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی تقریروں میں مسلمانوں کے خلاف بیان بازی شروع کر رکھی ہے۔

انہوں نے راجستھان کے علاقے بانسواڑہ میں مسلمانوں کو ’زیادہ بچے پیدا کرنے والے‘ اور ’درانداز‘ قرار دے دیا۔

مودی کے اس بیان کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔ حیدرآباد دکن سے رکن پارلیمان اور آل انڈیا مجلس اتحاد مسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے نریندر مودی پر جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس طرح کے بیانات دے کر ملک کو کمزور کر رہے ہیں۔

اسدالدین اویسی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’مودی کا مسلمانوں کے خلاف بیان نہ صرف مذمت کے قابل ہے بلکہ وہ لوگوں کو پیغام بھی دیتا ہے کہ مودی 2002 کے گجرات کے چیف منسٹر ہیں۔‘

 اویسی کا مزید کہنا تھا کہ ’وزیراعظم نریندر مودی کا بیان اسلامو فوبیا کی بہترین مثال ہے۔‘

اسدالدین اویسی کے مطابق: ’وزیراعظم مودی کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں رہا کہ وہ 133 کروڑ لوگوں کے وزیر اعظم ہیں، جن میں کئی مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔

’اس طرح سے 14 فیصد اقلیتوں کو درانداز کہنا، مسلم اقلیتی خواتین کو بدنام کرنا کہ وہ زیادہ بچے پیدا کرتی ہیں اور پھر یہ کہنا کہ کسی ہندو بہن کے گلے سے منگل سوتر اتار کر مسلمانوں کو دیا جائے گا، انہیں جہادی کہنا ہی وزیراعظم کا اصل ایجنڈا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’وہ اسی ایجنڈے کے تحت جیتتے آئے ہیں۔ مودی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے ایک راہ دکھائی کیونکہ انہیں الیکشن جیتنا ہے۔‘

نریندر مودی نے ریاست راجستھان میں سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کی ایک پرانی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف تبصرہ کیا تھا، جس میں انہوں نے انہیں ’درانداز‘ اور ’زیادہ بچے پیدا کرنے والے‘ کہا تھا۔

منموہن سنگھ نے سنہ 2006 میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا ’دعویٰ‘ دلتوں، پسماندہ طبقوں اور مسلمانوں کا ہے، تاہم اُس وقت کی حکمران جماعت کانگریس پارٹی نے وزیراعظم نریندر مودی کے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔

’اب کی بار 400 پار‘ سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے اسد الدین اویسی نے کہا: ’اس کا مطلب ہے کہ انڈین آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کی جائے گی۔ دلت اور او بی سے (پسماندہ طبقات) کے مخصوص حقوق کو ختم کیا جائے گا۔ اس سے ملک پر کافی اثر پڑے گا۔ کروڑوں لوگوں کو آئین سے حقوق ملے، لیکن اب بی جے پی اور مودی انہیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘

حیدرآباد میں عوام کے درمیان مقبولیت پانے والے اویسی نے بتایا کہ ’دلتوں نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر بی جے پی جیت جاتی ہے تو وہ بابا صاحب کا آئین تبدیل کرکے حقوق چھین لے گی۔‘

جموں و کشمیر کی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’بی جے پی کے دعوؤں سے لگتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کی تقدیر بدل دی لیکن بی جے پی کا کوئی رہنما کشمیر سے الیکشن نہیں لڑ رہا۔ اگر آپ نے اتنا کچھ کیا تھا تو کشمیر سے الیکشن لڑ لیتے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا