کیا کرونا برطانوی یونیورسٹیوں میں آسان سیکس کو ختم کر دے گا؟

برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں نئے ضابطے نہ صرف سیکس کرنے کے راستے میں قانونی رکاوٹ ہوں گے بلکہ کرونا وائرس کا خوف بھی موجود ہے۔

دو طالب علم یونیورسٹی آف کیمبرج کے مرکزی دروازے سے اندر جاتے ہوئے (فائل تصویر: اے ایف پی)

یونیورسٹی آف نیو کاسل میں دوسرے سال میں زیر تعلیم جیک ملر اس ماہ دوبارہ سے یونیورسٹی آئیں گے۔ موسم گرما میں ہونے والے لاک ڈاؤن کے بعد یونیورسٹی جانے سے قبل 19 سالہ جیک کہتے ہیں کہ وہ کرونا (کورونا) وائرس کے حوالے سے ان نئے اقدامات کے حوالے سے کشمکش کا شکار ہیں، جن کے مطابق چھ سے زیادہ لوگوں کے اکٹھے ہونے پر پابندی ہے، لیکن دفاتر اور سکول کھلے رہیں گے۔

وہ کہتے ہیں ان اقدامات کے تحت ایسی صورت حال میں کہ جب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل نہیں سکیں گے (جیسا کہ مشترکہ ہالز اور بارز میں) اور کئی نائٹ کلبز بند رہتے ہیں تو ان کے خیال میں طلبہ کو وسائل حاصل ہو جائیں گے اور وہ سیکس کے لیے ملاقاتوں کی خاطر ٹیکنالوجی کا سہارا لیں گے اور یونیورسٹی کی حدود سے باہر کیمپس سے دور رہائش گاہوں کو ترجیح دی جائے گی۔

جیک ملر کہتے ہیں: 'کلب بند ہیں۔ اس صورت میں زیادہ تر طلبہ وقتی سیکس کے لیے موبائل فون ایپس کا استعمال کریں گے۔' ان کا ماننا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا ان کی طرح طلبہ کو ان کے یونیورسٹی کے تجربے سے لطف اندوز ہونے سے نہیں روکے گی۔

19 سالہ شارلٹ (فرضی نام) یونیورسٹی آف سرے میں دوسرے سال کی طالبہ ہیں۔ وہ اتفاق کرتی ہیں کہ لوگ اپنی ٹرم کے پہلے ہفتوں میں وقتی سیکس کرتے رہیں گے۔ اگرچہ وہ کہتی ہیں کہ وہ اس بات سے زیادہ پریشان ہیں کہ اس طرح جوڑوں کے درمیان سات دن انتظار کی پالیسی بن گئی ہے تا کہ اس امر کویقینی بنایا جا سکے کہ ان میں کووڈ کی علامات ظاہر نہ ہوں۔

یونیورسٹیوں میں نئے طلبہ کی جنسی سرگرمی یا مستقل تعلق قائم کیے بغیر سیکس اعلیٰ سطح کے تعلیمی اداروں کے ماحول کا ہمیشہ سے حصہ چلا آ رہا ہے، جس کی وجہ سے گھر سے دور مشترکہ رہائش گاہ میں رہنے والےنوجوانوں کی بڑی تعداد، کرفیو کی پابندیاں نہ ہونے کی صورت میں، ایک جگہ پر پہلی بار اکٹھی ہوتی ہے۔ ہلے گلے کے لیے بڑے پیمانے پر شراب پی جاتی ہے۔

فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے تعلیمی اداروں کے طلبہ میں رابطے کی آسانی کے لیے ایک مکمل سوشل میڈیا پلیٹ فارم قائم کیا۔ 'ٹریفک لائٹ پارٹیز'کے نام کے اس پلیٹ فارم پرموجود رنگین سٹکرز ظاہر کرتے ہیں کہ آیا آپ اکیلے ہیں یا کوئی پارٹنر موجود ہے یا پارٹنر ہونے کے باوجود تعلق قائم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ طلبہ دوہزار کی دہائی کے اوائل میں ایسی پارٹیاں کرتے تھے حتیٰ کہ یونیورسٹی آنے والے نو عمر طلبہ بھی ایک بار سیکس کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔

اگرچہ بعض رپورٹس بتاتی ہیں کہ نوجوان افراد پہلے سے کہیں کم سیکس کر رہے ہیں اور ماضی کی نسلوں کے مقابلے میں ایک وقت میں کم شراب پی رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر تحقیق کرنے والی برطانوی فرم 'یوگوو' کی جانب سے اس سال فروری سے کیے گئے ایک جائزے سے پتہ چلا ہے کہ 18 سے 19 برس کے نوجوان عمر کے کسی بھی دوسرے گروپ کے مقابلے میں زیادہ سیکس کر رہے ہیں۔ وہ تمام دوسرے لوگوں کی 1.1 کی شرح کے مقابلے میں ایک ہفتے میں اوسطاً 1.8 بار سیکس کرتے ہیں، تو جب وہ اس سال یونیورسٹی واپس آئیں گے تو کیا ہوگا؟

موسم گرما میں لاک ڈاؤن میں گھر پر والدین کے ساتھ وقت گزارنے اور دوستوں کے ساتھ باہر نہ نکلنے کے بعد، طلبہ کے مستقل تعلق کے بغیر سیکس کے بارے میں کیا احساسات ہوں گے؟ نہ صرف نئے ضابطے سیکس کرنے کے راستے میں قانونی رکاوٹ ہوں گے بلکہ کرونا وائرس کا خوف بھی موجود ہے۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے طلبہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس وقت اور جب ان کی پڑھائی شروع ہو جائے 'اپنے ہاتھ دھوئیں، چہرہ ڈھانپیں، فاصلہ رکھیں اور چھ سے زیادہ افراد سماجی طور پر گروپ کی شکل میں جمع نہ ہوں۔'

محکمہ تعلیم نے بھی یونیورسٹیوں کے لیے گائیڈلائنز جاری کی ہیں جن کے تحت ایسے طلبہ کے خلاف انضباطی کارروائی اور جرمانہ کیا جا سکتا ہے جو سماجی دوری کے قواعد کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے۔

گریٹر مانچسٹر کے علاقے میں پانچ یونیورسٹیاں، جن میں یونیورسٹی آف بولٹن بھی شامل ہے، طلبہ کو پہلے ہی خبردار کر چکی ہیں۔ طلبہ سے کہا گیا ہے کہ وہ خفیہ پارٹی کرنے کی بجائے نئے آنے والے طلبہ کے لیے ورچوئل تقاریب کریں جن کا اہتمام طلبہ تنظمیں کرتی ہیں۔ مانچسٹر میں اس وقت مقامی طور پر لاک ڈاؤن نافذ ہے۔

بڑے سماجی اجتماعات پر بلاشبہ پابندی ہے اور نوٹنگھم میں 19 سالہ طالب علم کو کیا گیا 10 ہزار پاؤنڈ کا جرمانہ حوصلہ شکنی کے لیے کافی ہے۔ طالب علم نے گھر میں پارٹی کی تھی جس میں 50 افراد شریک ہوئے۔

پارٹیوں کا اہتمام نہ ہونے سے ملاقات یا منصوبہ بندی کے بغیر پرخطر اجتماعات کے لیے سازگار مواقعوں میں بلاشبہ کمی آئے گی، تاہم کم از کم کسی دوسری جگہ پر ملنے کا راستہ تب بھی کھلا ہے۔

اگرچہ دوسری یونیورسٹیوں جن میں کیمبرج، یونیورسٹی کالج لندن اور ایسٹ اینگلیا شامل ہیں، جنہوں نے رات کو دیر گئے مہمانوں کی آمد پر پابندی لگادی ہے،مشکلات اس قدر ہیں کہ گھروں سے'بلبلوں' کا کردار ادا کرنے کی توقع کی جا رہی ہے جو پھٹے گا نہیں۔ اس صورت حال میں نئے لوگوں سے ملاقات کے تقریباً تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔

سیکس ایجوکیشن چیریٹی سیکس پریشن یوکے کی ایلینور کورچین کا کہنا ہے کہ 'ان لوگوں کو دوبارہ سوچنا ہو گا کہ نئے حالات کے تحت کیا ہو سکتا ہے۔ ایک گھر میں رہنے والے شاید دلچسپی رکھ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ماضی میں شاید طلبہ کو روکا جاتا ہو کہ وہ اپنے ہاؤس میٹس کے ساتھ رات نہ گزاریں کیونکہ یہ تعلق رکھنا آسان نہیں تھا لیکن اب ہمیں لگتا ہے کہ یہ عام بات ہو گی۔'

شارلین ڈگلس ایک سیکس اور نجی تعلقات کی کوچ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'طلبہ ایک پارٹنر رکھنا پسند کریں گے جس سے وہ باقاعدہ سیکس کرسکیں بجائے اس کے وہ مختلف پارٹنرز رکھتے ہوں۔'

ان افراد کے لیے جو ابھی بھی قوانین توڑے بغیر لوگوں سے مل سکتے ہیں یا انہیں مالی مسائل کا سامنا نہیں ہے، انہیں ابھی تک وائرس کے حوالے سے تشویش ہے۔

20 سالہ اولیویا ایملی جو کیمرج یونیورسٹی میں تیسرے سال کا آغاز کر رہی ہیں وہ بھی شارلٹ کی طرح قوانین سے زیادہ وائرس کی وجہ سے پریشان ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے ممکنہ ساتھیوں سے پوچھیں گی کہ وہ کرونا وائرس کے امکان پر کیا سوچتے ہیں اور کیا دونوں افراد اس خطرے کو سمجھتے ہوئے چلیں گے۔ وہ از راہ مذاق کہتی ہیں: 'مجھے لگتا ہے مجھے بہت مار پڑے گی، اگر میں نے تھوڑے مزے کے لیے اپنے دوستوں کو کرونا دے دیا۔'

اس میں شک نہیں کہ یہ بندشیں رشتوں اور قربت کو مشکل بنا دیں گی۔ تھنک ٹینک ہائیر ایجوکیشن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر نک ہل مین کا کہنا ہے کہ 'ایسی بندشیں صاف طور پر طلبہ کے قریبی تعلقات اور رشتوں کو مشکل بنا دیں گی۔'

یونیورسٹی آف کریئیٹیو آرٹس کی 'سٹوڈنٹس' یونین کی چیف ایگزیکٹو اینڈی سکوئیر کے مطابق یونیورسٹیوں کے لیے طلبہ کی صحت کی حفاظت اور ان کی ذہنی صحت کے لیے ایک مناسب تعلق کے درمیان توازن رکھنا ایک مشکل کام ہو گا۔

نوجوان افراد پہلے ہی کیسز کے اضافے اور دوسری لہر کے خدشے کے باعث زیادہ دباؤ کا شکار ہیں اور انہیں الوگرتھم سے حاصل کردہ گریڈز ملنے سے کئی طلبہ اپنی مرضی کی یونیورسٹیوں میں داخلہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ کئی کورسز آن لائن منتقل ہو چکے ہیں اور ان کی کم سے کم فیس نو ہزار ڈالر ہے جبکہ برطانیہ ایک اور معاشی بحران کے دہانے پر ہے۔ یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ شرائط کے ساتھ ایک رات کی مستی کتنی بڑی نعمت ہو سکتی ہے۔

کچھ یونیورسٹیوں نے اس معاملے کو براہ راست حل کرنے کی کوشش کی ہے، بجائے اس کے کہ یہ ظاہر کیا جائے کہ ایسا ہو گا ہی نہیں۔ مثال کے طور پر بورن ماؤتھ سیکشوئیل ہیلتھ ڈورسیٹ کے نمائندوں کو فریشر فئیر اور گولڈ سمتھس سمیت یونیورسٹی آف لندن میں خوش آمدید کہے گی۔ یہ ان اداروں میں شامل ہوں گے جو اگست میں ٹیرینس ہگنز ٹرسٹ کی جانب سے محفوظ سیکس کی ہدایات جاری کر چکے ہیں۔ ان ہدایات میں بوسے بازی اور چہرے ملانے سے پرہیز اور ماسک پہننا شامل ہیں۔

لیکن ایسی ہدایات کے شائع ہونے کے باوجود کورچین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے حوالے سے محفوظ سیکس کی ہدایات صرف ایک دھوکہ ہیں۔ اب طلبہ کو نہ صرف جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشنز اور غیر مطلوبہ حمل کی فکر کرنی ہوگی بلکہ دونوں ساتھیوں کے درمیان کرونا وائرس کی منتقلی کا ڈر بھی سہنا ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ 'کرونا کے دوران محفوظ سیکس کی ہدایات کو بڑے پیمانے پر شائع نہیں کیا گیا اور عین ممکن ہے کہ یونیورسٹی کے طلبہ ان پیچیدہ حالات میں محفوظ سیکس کی ہدایات سے آگاہ نہ ہوں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گو کہ یونیورسٹی کے ان تجربات کو غیر اہم کہہ کر جھٹلانا آسان ہے، جب آپ جانتے ہوں کہ کیا کچھ داؤ پر ہے لیکن ماہرین کے مطابق یہ نوجوانوں کی نقل و حرکت پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

ڈگلس کا کہنا ہے کہ 'زیادہ تر صارف یونیورسٹی کے ابتدائی دور کو ہی اپنے جنسی سفر کا آغاز قرار دیتے ہیں، جب انہوں نے اپنی جنسی خواہشات کے بارے میں سمجھا۔ غیر مبہم رشتے لوگوں کو اپنی جنسی تسکین اور ایک دباؤ کے بغیر ماحول میں نئی خواہشات تلاش کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں۔ آسانی سے مہیا سیکس سے پرہیز کرنے سے طلبہ سیکس کے بارے میں طویل المدتی اعتماد سے محروم ہو سکتے ہیں۔

کچھ افراد اس بارے میں پر امید ہیں، باوجود اس کے کہ تعلق کا ایک اپنا دباؤ ہوتا ہے جو کہ زیادہ شراب نوشی میں بدل سکتا ہے یا برطانوی یونیورسٹیز میں رضامندی کے بغیر سیکس کرنے کے واقعات میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔

ڈگلس کا ماننا ہے کہ آسان سیکس طلبہ کو جنسی تسکین کے مختلف طریقے ڈھونڈنے میں مدد دے گا جس میں 'ان کے پاس نئے لوگوں سے ملنے کے مواقع کم ہوں گے، طلبہ شاید پریشان ہوں کہ وہ یہ تلاش نہیں کر سکتے۔ ہمیں امید ہے اس وقت کا کچھ حصہ شاید دوستوں سے بات چیت کرنے، خود لذتی کے ذریعے سیکس، یا اپنی حدود کے تعین کرنے میں گزرے۔'

 میٹ ہنکوک متنبہ کرتے ہیں کہ 'یہ دیکھنا کہ کیا کرونا وائرس یونیورسٹیوں میں آسان سیکس کا خاتمہ کر سکتا ہے؟ ابھی باقی ہے لیکن جب مسلسل بدلتے ہوئے قوانین طلبہ کو اپنے دوستوں سے دور رکھ رہے ہیں تو آپ اپنی خواہش کو قتل نہ کریں'۔

یہ حیران کن ہے کہ یہ تعلیمی سال کافی مختلف ثابت ہو رہا ہے۔ وہ افراد جنہوں نے بڑا قدم اٹھایا ہے اور ان بے نظیر لمحات میں یونیورسٹی جا رہے ہیں ان کے لیے 'ون نائٹ سٹینڈ' کم ترین پریشانی ہو گی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس