’داؤد گوشت خود بانٹتا تھا، اب کیسی عید؟‘ یونان حادثے کے متاثرین

گجرات میں یونان کشتی سانحے کے متاثرین کا ہر گھر سوگ میں ہے، داؤد شہزاد اسی کشتی میں اٹلی جا رہے تھے۔ ان کے چچا کا کہنا ہے کہ اب تک انہیں صرف یہی بتایا گیا ہے کہ کشتی ڈوب گئی ہے لیکن یہاں کے کسی لڑکے کی میت نہیں پہنچی۔

عید کا دن تب ہی خوشی دیتا ہے، جب سب اپنے ساتھ ہوں لیکن عید سے کچھ روز پہلے جب اپنے بچھڑ جائیں تو کہاں کی عید کیسی خوشی؟ ایسا ہی منظر گجرات کے گاؤں گولیکی میں بھی دیکھنے کو ملا، جہاں کے مکین یونان میں کشتی حادثے کا شکار ہونے والے اپنے پیاروں کا غم منا رہے ہیں۔

شہر کی بڑی سڑکوں سے ہوتے ہوئے ہم گاؤں کی تنگ مگر صاف گلیوں سے گزر کر جب داؤد شہزاد کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ جس گلی میں ان کا گھر ہے وہاں سے ان سمیت چار دیگر نوجوان اٹلی کے سفر کو نکلے تھے، مگر یونان میں کشتی حادثے کا شکار ہو گئے۔

اس گھر کے ایک کمرے تک ہمیں جانے کی اجازت ملی جہاں ہماری ملاقات داؤد کے چچا سے ہوئی، جنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ واپس آ جائیں گے۔

داؤد کے گھر والے اور حادثے کا شکار ہونے والے دیگر نوجوانوں کے اہل خانہ اس وقت میڈیا کے سوالوں کے جواب دے دے کر اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ وہ کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتے۔

یہی وجہ ہے کہ داؤد کے گھر میں بھی صرف ان کے چچا محمد اکرم نے ہم سے بات کی۔

وہاں داؤد کی چھوٹی سی بیٹی بھی موجود تھی، جس کے ہاتھ میں ایک پنکھا نما کھلونا موجود تھا اور آنکھوں میں یہ سوال تھا کہ ہم کون ہیں اور کیا کرنے آئے ہیں؟

داؤد کے چچا نے بتایا کہ عید کا موقع ہے اور ان کے گھر میں سوگ کا سماں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ داؤد ہمیشہ قربانی کے روز بڑے جوش و جذبے سے پیش پیش ہوتے، گوشت بھی خود تقسیم کرتے لیکن اس بار وہ نہیں ہیں اور ان کے گھر میں کوئی عید نہیں منا رہا۔

انہوں نے بتایا کہ داؤد لوڈر گاڑی چلاتے تھے اور اٹلی جانے کے لیے انہوں نے اپنی گاڑی بیچی اور کچھ ادھار بھی لیا تھا۔

بقول محمد اکرم: ’داؤد کے تین بچے تھے جنہیں وہ دنیا جہان کی خوشیاں دینا چاہتا تھا اور بچوں کی یہی خوشیاں داؤد کو مہنگی پڑ گئیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ اب تک انہیں صرف یہی بتایا گیا ہے کہ کشتی ڈوب گئی ہے لیکن یہاں کے کسی لڑکے کی میت نہیں پہنچی۔

انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ انہیں کچھ بتائے اور ان کے بچوں اور اہل خانہ کو مدد فراہم کرے کیونکہ داؤد گھر کے واحد کفیل تھے۔

گولیکی گاؤں میں عید کے موقعے پر انتہائی خاموشی تھی اور جیسی چہل پہل اور رونق عید کے روز ہوتی ہے وہ اس گاؤں میں نظر نہیں آئی۔

راشد محمود بھی اسی گاؤں میں رہتے ہیں اور داؤد کے ہمسائے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ گولیکی گاؤں سے جس طرح سات آٹھ لڑکے گئے تھے، اسی طرح ہر گاؤں سے ایک، دو یا چار لڑکے اٹلی کے لیے روانہ ہوئے تھے، یعنی ضلع گجرات سے 57 کے قریب نوجوان بہتر مستقبل کی تلاش میں گھر سے نکلے اور حادثے کا شکار ہوئے۔

بقول راشد محمود: ’اس سال پورا گاؤں سوگ کی کیفیت میں ہے۔ یہاں ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے جس کے 300 کے قریب نوجوان رکن ہیں، ہم سب نے اس بار یہی سوچا ہے کہ عید اس بار خاموشی اور سادگی سے منائی جائے گی، کوئی ایک دوسرے کو عید مبارک نہیں کہے گا کیونکہ جو لڑکے گئے ہیں، وہ اس گاؤں کے اعلیٰ ترین بچے تھے، جن سے کبھی کسی سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔‘

گولیکی کے ہی ایک رہائشی خرم شہزاد نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نوجوانوں کے لیے مواقع پیدا کرے تاکہ نوجوان اس راستے سے ملک کو چھوڑ کر نہ جائیں۔

محمد شکیل، داؤد اور ان کے ساتھ جانے والے ساتھیوں کے دوست ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’ہمیشہ عید پر ہم سب دوست بہت ہلہ گلہ کیا کرتے تھے،‘ لیکن اس عید پر ان کے دوست نہیں ہیں اور وہ انہیں بہت یاد کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی