بےنظیر حکومت کے خلاف سازش، برطرف فوجی افسران کی سزائیں برقرار

1995 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں دونوں افسران کو فوجی عدالت نے سزائیں سنائی تھیں جن کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھی تھیں۔

گذشتہ برس چیف جسٹس کا حلف اٹھانے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دونوں سابق افسران کی اپیلوں کو سنا اور 15 فروری کو محفوظ کیا تھا (اے ایف پی/ فائل)

پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملک کی سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کی حکومت کو 1995 میں گرانے کی سازش میں ملوث دو برطرف سابق فوجی افسران کی سزاؤں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کرنل ریٹائرڈ آزاد منہاس اور کرنل ریٹائرڈ عنایت اللہ نے فوجی عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزاؤں کے خلاف اپیلیں عدالت عظمٰی میں دائر کر رکھی تھیں جن سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ 19 ماہ قبل محفوظ کیا گیا تھا۔ 

جسٹس منیب اختر نے منگل کو فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں دونوں سابق فوجی افسران کی اپیلیں خارج کر دیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی اور متاثرہ فریقین کو سننے کے بعد کارروائی مکمل کی تھی۔

چیف جسٹس کا گذشتہ برس حلف اٹھانے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دونوں سابق افسران کی اپیلوں کو سنا اور 15 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

فیلڈ کورٹ مارشل نے آزاد منہاس کو دو، عنایت اللہ کو چار سال قید بامشقت اور برطرفی کی سزا سنائی تھی۔ دونوں سابق فوجی افسران کے خلاف 1995 میں بےنظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں کارروائی کی گئی تھی۔

کرنل ریٹائرڈ عنایت اللہ  نے 2000 میں فوجی عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزا کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جبکہ کرنل ریٹائرڈ منہاس نے لاہور ہائی کورٹ میں اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کر رکھی تھی جسے مئی 2015 میں خارج کر دیا گیا تھا بعد ازاں انہوں نے بھی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دونوں افسران نے سپریم کورٹ کے سامنے موقف اختیار کیا کہ فوجی عدالت کی جانب سے جس بنیاد پر انہیں سزا سنائی گئی وہ بدنیتی پر مبنی تھی، انہیں مسلح افواج کی ملازمت سے برطرف دیا گیا تھا اور ان کی جائیدادیں اور دیگر مراعات بھی سلب کر لی گئی تھیں۔

عدالت عظمیٰ نے اس آبزرویشن کے ساتھ فیصلہ محفوظ کیا تھا کہ وہ اس بات پر غور کرے گی کہ قانون کے تحت ان تمام تقاضوں کو پورا کیا گیا ہے یا نہیں۔

کیس کا سیاق و سباق

دستیاب معلومات کے مطابق 30 ستمبر 1995 کو جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں ہونے والے کور کمانڈرز کے اجلاس پر حملے کی منصوبہ بندی اور سازش کے الزام میں دونوں سابق فوجی افسران کو 26 ستمبر 1995 کو ریٹائرڈ میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی اور بریگیڈیئر مستنصر اللہ کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔

مبینہ منصوبے میں اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ، کابینہ کے سینیئر وزرا اور فوجی سربراہان کے قتل کی سازش شامل تھی اس کے علاوہ میجر جنرل ظہیر عباسی کے امیر کے طور پر اسلامی نظام خلافت کا اعلان بھی شامل تھا۔

اس وقت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق سازش کی تفصیلات اس وقت سامنے آئیں جب سازش کرنے والوں میں سے ایک اور اس سے الگ ہونے والے دھڑے حرکت الجہاد الاسلامی کے سربراہ قاری سیف اللہ اختر نے راز افشاں دیا۔

 ان کے شواہد پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے ریٹائرڈ میجر جنرل عباسی کو سات سال قید اور بریگیڈیئر مستنصر بلا کو 14 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان