پاکستان سے ملک بدر افغان مترجم کی برطانیہ منتقلی موخر

اپنی جان خطرے میں ڈال کر برطانوی فوج کے ساتھ خدمات انجام دینے والے افغان مترجم کو برطانیہ کی جانب سے ’غلطی سے‘ پناہ دینے سےانکار کے بعد پاکستان سے واپس افغانستان بھجوا دیا گیا تھا۔

صوبہ ہلمند میں ایک مترجم کے طور پر کام کرنے افغان شہری کو دو بار بتایا گیا کہ وہ برطانیہ نہیں آ سکیں گے (دی انڈپینڈنٹ)

اپنی جان خطرے میں ڈال کر برطانوی فوج کے ساتھ خدمات انجام دینے والے ایک افغان مترجم کو برطانیہ کی جانب سے ’غلطی سے‘ پناہ دینے سےانکار کے بعد پاکستان سے واپس افغانستان بھجوا دیا گیا۔

افغان مترجم کو دو بار بتایا گیا کہ وہ برطانیہ نہیں آ سکیں گے حالانکہ برطانوی وزارت دفاع کے ایک افسر نے انہیں ’افغانستان میں برطانیہ کے فوجی مشن کا پرجوش حامی‘ قرار دیا جنہوں نے صوبہ ہلمند میں برطانوی فوج کے لیے کام کرنے کے دوران  تقریباً ہر دن اپنی جان کو سنگین خطرے میں ڈالا تھا۔

اب ڈیڑھ سال انتظار کی سولی پر لٹکنے کے بعد برطانیہ نے بالآخر تسلیم کر لیا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ غلط تھا اور اب ان کی برطانیہ منتقلی کی درخواست منظور کر لی گئی ہے لیکن یہ فیصلہ انہیں پاکستان سے واپس افغانستان بھجوانے کے پانچ روز بعد سامنے آیا جہاں وہ طالبان کی ’بنیاد پرست‘ حکومت سے بچنے کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ فرار ہو کر پہنچے تھے۔

اس کے بعد سے وہ برطانیہ کی حکومت کی مدد کے بغیر واپس پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور اب انہیں برطانیہ منتقل ہونے کے لیے مزید طویل انتظار کا سامنا ہے۔ عدالتی کاغذات میں کہا گیا ہے کہ ان کی اہلیہ اور بچے تیسرے محفوظ ملک میں ہیں لیکن (پاکستانی) حکام نے پہلے بھی انہیں ملک بدر کرنے کی دھمکی دی تھی۔

یہ معاملہ برطانیہ کی ری سیٹلمنٹ سکیم میں  موجود مشکلات کو اجاگر کرنے والی تازہ ترین مثال ہے جو آغاز کے بعد سے ہی مسائل سے دوچار ہے۔

اب تک برطانیہ نے اس سکیم کے تحت 11 ہزار سے زیادہ لوگوں کو برطانیہ منتقل کرنے کی منظوری دی ہے لیکن خطرات کا سامنا کرنے والے افغان شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں تاخیر پر تنقید بھی ہوئی ہے۔

ڈنکن لیوس کے وکیل جیمی بیل نے کہا: ’برطانوی فوج میں خدمات انجام دینے اور صوبہ ہلمند میں ایک مترجم کے طور پر کام کرنے کے بعد ہمارے مؤکل کو توقع تھی کہ ان کے کیس کو منصفانہ طور پر اور جلد نمٹایا جائے گا تاکہ انہیں افغانستان میں سنگین خطرات سے بچایا جا سکے۔ اس کے بجائے ان کو دو غلط فیصلوں کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں  ڈیڑھ سال انتظار کرنے پر مجبور کیا گیا۔

ان کے بقول: ’مقدمے میں تاخیر اور (پناہ کے لیے اہلیت کا) سٹیٹس نہ ملنا ان کی افغانستان بدری کا براہ راست باعث بنی۔ یہ صرف عدالتوں کی فوری مداخلت تھی جس نے حکومت کو بالآخر صحیح فیصلہ کرنے پر آمادہ کیا۔‘

میجر جنرل چارلی ہربرٹ نے کہا کہ برطانوی فوج کے لیے کام کرنے والے بہت سے دیگر افراد کو پاکستان میں (ملک بدری کے) خطرے کا سامنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ’ہم جانتے تھے کہ یہ ایک بہت مختلف خطرہ ہے اور میڈیا حکومت کو اس کے خطرے سے خبردار کر رہا ہے۔ یہ خاص طور پر ظالمانہ اور گھناؤنا ہے  کیوں کہ انہیں (پناہ کے حوالے) سے اس وقت اہل قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا جب انہیں واپس افغانستان ملک بدر کر دیا گیا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’بہت سے ایسے افغان شہری ہیں جن کو ابھی بھی اسلام آباد میں چھوڑ دیا گیا جن میں سے کچھ اب 16 ماہ سے زیادہ عرصے سے وہاں موجود ہیں اور اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ وہ کب برطانیہ منتقل ہوں گے۔ ان کو بھی (پاکستان سے) ملکی بدری کا خطرہ لاحق ہے۔‘

لیبر پارٹی کے مسلح افواج کے شیڈو وزیر اور رکن پارلیمان لیوک پولارڈ نے کہا کہ افغان شہریوں کے ساتھ حکومت کا سلوک ’ناکامی کی شرمناک کہانی‘ ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’حکومت افغان ری لوکیشنز اینڈ اسسٹینس پالیسی (اے آر اے پی) درخواستوں سے نمٹنے میں ناکام رہی۔ افغانوں کو درمیان میں چھوڑ دیا گیا اور ان (حکومت) کی نااہلی سے انہیں واپس افغانستان بھیجا جا رہا ہے جس نے ممکنہ طور پر ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔‘

برطانوی وزارت دفاع نے کہا کہ مدد کے لیے درخواستوں کا جائزہ لینے میں وقت لگتا ہے اور یہ کیس کی پیچیدگی، جانچ پڑتال اور جائزوں کے حجم پر منحصر ہے۔

والد نے افغان جنگ کے دوران صوبہ ہلمند میں برطانوی فوج میں بطور ترجمان کام کیا تھا۔

مئی 2021 میں انہوں نے وزارت دفاع کی افغان ری لوکیشنز اینڈ اسسٹنس پالیسی سکیم کو درخواست دی جو برطانوی افواج کے ساتھ خدمات انجام دینے والوں کی مدد کے لیے بنائی گئی تھی۔

ابتدائی طور پر انہیں اس سکیم کے تحت مدد سے انکار کردیا گیا تھا کیونکہ انہیں ملازمت سے برخاست کردیا گیا تھا۔ عدالت میں دائر قانونی کاغذات کے مطابق مترجم نے دعویٰ کیا کہ اس کی برطرفی ایک گورکھا سارجنٹ کے ساتھ جھگڑے کا نتیجہ تھی۔

انہوں نے اگست 2021 میں اس سکیم کے لیے دوبارہ درخواست دی جب وزارت دفاع نے اپنی پالیسی میں ترمیم کی تاکہ ان افغان شہریوں کو برطانیہ لانے کی اجازت دی جائے جنہیں ’معمولی وجوہات‘ کی بنا پر برطرف کر دیا گیا تھا لیکن انہیں طالبان کی حکومت میں خطرات کا سامنا تھا۔

عدالت میں جمع کرائے گئے گواہوں کے بیانات میں ایک برطانوی سابق کمیشنڈ افسر نے ان کو ’بہت اچھا مترجم، پیشہ ور اور دلچسپ شخص‘ کے طور پر بیان کیا تھا۔

انہوں نے کہا: ’انہوں نے اپنی جان کو تقریباً ہر روز سنگین خطرے میں ڈالا اپنے اس مستقبل کے بارے میں جانے بغیر جس میں وہ پھنس چکے ہیں۔‘

وزارت دفاع کی پولیس کے ایک افسر نے بھی اپنے بیان میں لکھا کہ مترجم کی ’نہ صرف برطانوی حکومت بلکہ وزارت دفاع اور ملٹری کے لیے خدمات کو سراہا جانا چاہیے۔‘

پولیس افسر نے ایک واقعہ بیان کیا جب مترجم نے انہیں افغان فوج کے ایک سارجنٹ کے ساتھ شدید تصادم سے بچایا تھا جس کی وجہ سے انہیں گولی لگ سکتی تھی۔

ان کے ایک اور برطانوی ساتھی نے لکھا کہ ان کا ’رویہ دوستانہ اور مددگار تھا اور وہ افغانستان میں برطانیہ کے مشن کے پرجوش حامی تھے۔‘

واضح شواہد کے باوجود کہ وہ برطانوی فوج کے ملازم تھے، مترجم کو مارچ 2022 میں دوبارہ برطانیہ منتقل کرنے سے روک دیا گیا کیوں کہ وہ برطانیہ کے کسی سرکاری محکمے میں ملازم نہیں تھا۔

انہوں نے نظرثانی کی درخواست دائر کی لیکن رواں سال نومبر کے آخر تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا جب پاکستانی حکام نے انہیں واپس افغانستان ملک بدر کر دیا۔

وزارت دفاع نے ان کی پاکستان سے ملک بدری کے پانچ دن بعد فیصلہ کیا کہ مترجم درحقیقت اے آر اے پی سکیم کے لیے اہل ہیں۔ انہوں نے یہ فیصلہ وکلا کی جانب سے فوری عدالتی نظرثانی کی کارروائی جاری کرنے اور کیس کو عدالتی سماعت کے لیے درج کیے جانے کے ایک دن بعد دیا۔

حکومت پاکستان کی جانب سے قانونی دستاویز نہ رکھنے والے پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے اعلان کے بعد لندن نے پاکستان سے برطانوی فوج کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہریوں کو برطانیہ منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن برطانیہ میں پناہ کے لیے اہل ہزاروں افغان  شہریوں کو پاکستان میں اس وقت درمیان میں چھوڑ دیا گیا جب وزیر اعظم رشی سونک نے فیصلہ کیا کہ انہیں برطانیہ کے ہوٹلوں میں نہیں رکھا جانا چاہیے جس کے بعد وزارت دفاع نے چارٹرنگ پروازیں روک دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پالیسی کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس کے بعد برطانوی حکام کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا جس کے بعد یہ پروازیں بحال ہو گئیں۔

وزیر دفاع جیمز ہیپی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ پاکستانی حکومت افغان شہریوں کو برطانیہ منتقل کرنے کی کوششوں میں برطانیہ کی مدد کر رہی ہے۔

انہوں نے پیر کو پارلیمنٹ کو بتایا کہ اے آر اے پی سکیم کے ایک درخواست گزار کو  اپیل کی سماعت سے قبل پاکستان سے ملک بدر کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے یقین نہیں ہے کہ ہم اس کے خلاف کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان آخر کار ایک خودمختار ملک ہے اور اسے یہ کہنے کا پورا حق ہے کہ ملک میں کون رہ سکتا ہے اور کون نہیں۔‘

اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن نے افغان باشندوں کو ممکنہ گرفتاری کی صورت میں اشورنس لیٹرز جاری کیے ہیں تاکہ وہ انہیں پاکستانی حکام کو دکھا سکیں تاہم یہ صرف ان لوگوں کو دیے جاتے ہیں جن کو پہلے ہی اے آر اے پی سکیم کے تحت باضابطہ طور پر نقل مکانی کا وعدہ کیا گیا ہے اور ان لوگوں کے لیے کوئی تحفظ نہیں ہے جو فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔

برطانوی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا: ’ہم ان بہادر افغان شہریوں کے ساتھ اپنے عزم کا اظہار کر رہے ہیں جنہوں نے افغانستان میں برطانیہ کے مشن کی حمایت کی۔ اب تک ہم تقریباً 24 ہزار چھ سو افراد کو افغانستان سے نکال کر تحفظ فراہم کر چکے ہیں جن میں ہزاروں افغان باشندے بھی شامل ہیں جو ہماری افغان آباد کاری کی سکیموں کے لیے اہل ہیں۔‘

ترجمان کے مطابق: ’جبکہ اے آر اے پی سکیم کی اہلیت کا فیصلہ ہر انفرادی کیس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے تاہم ہر کیس کا جائزہ مکمل کرنے میں جو وقت لگتا ہے اس کا انحصار مختلف عوامل پر ہوتا ہے جن میں کیس کی پیچیدگی، جانچ پڑتال اور وزارت دفاع کو موصول ہونے والے جائزے صرف اس صورت میں اہل پائے جائیں گے جب وہ شائع شدہ پالیسی میں بیان کردہ معیار پر پورا اتریں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ