کسنجر انڈیا میں بدنام، پاکستان میں نیک نام ہیں: خورشید قصوری

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے نہ صرف اپنے دورِ وزارت میں ہنری کسنجر سے ہونے والی ملاقات کا احوال سنایا بلکہ پاکستان کے دیگر ممالک سے تعلقات خصوصاً انڈیا اور افغانستان کے معاملے پر بھی بات کی۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا ہے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا پاکستان سے خاص تعلق رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ ہندوستان (انڈیا) میں بدنام ہیں اور پاکستان میں نیک نام ہیں۔

امریکی سفارت کار ہنری کسنجر 30 نومبر 2023 کو 100 برس کی عمر میں چل بسے تھے۔ انہوں نے 70 کی دہائی میں اس وقت کے امریکی صدور رچرڈ نکسن اور جیرالڈ فورڈ کے دور میں امریکہ کی خارجہ پالیسی ترتیب دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں خورشید محمود قصوری نے نہ صرف اپنے دورِ وزارت میں ہنری کسنجر سے ہونے والی ملاقات کا احوال سنایا بلکہ پاکستان کے دیگر ممالک سے تعلقات خصوصاً انڈیا اور افغانستان کے معاملے پر بھی بات کی۔

خورشید قصوری نے کہا کہ ’1971 میں جب مشرقی پاکستان کا معاملہ تھا تو پاکستان کی امریکہ کو ضرورت بھی تھی، پاکستان کے تعلقات امریکہ کے ساتھ اچھے بھی تھے اور چین کے ساتھ بھی بہت اچھے تھے۔ چین اور روس اور امریکہ اور روس کے تعلقات کچھ اچھے نہیں تھے تو ہنری کسنجر اور رچرڈ نکسن کی یہ کوشش تھی کہ چین سے تعقات اچھے ہوں اور چین اور امریکہ مل کر روس پر دباؤ ڈالیں اور روس کو دنیا میں تنہا کیا جائے، اس میں پاکستان کا کلیدی کردار تھا، جس کے دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’صدر یحییٰ خان یہاں کے صدر تھے اور ہنری کسنجر کو ویسے بھی ہندوستان کی قیادت پسند نہیں تھی اور نہ رچرڈ نکسن کو پسند تھی۔ پاکستانیوں کے بارے میں ان کے بہت اچھے خیالات تھے کہ یہ بالکل کھلے لوگ ہیں، صاف بات کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خورشید قصوری نے مزید کہا کہ ’اس سے پہلے جب رچرڈ نکسن نائب صدر تھے اور انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، تو اس وقت بھی وہ ہندوستان سے نالاں تھے اور پاکستان سے خوش تھے۔ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ میں اس ملک کے لیے سب کچھ کرسکتا ہوں۔‘

سابق وزیر خارجہ نے بتایا کہ ہنری کسنجر کے چین میں ماؤزے تنگ سے لے کر صدر شی تک سے تعقات رہے تھے۔ انہوں نے اس دور میں چین کی قیادت سے ملاقاتیں کیں جب چین میں امریکی قیادت کا استقبال کرنا نامناسب سمجھا جاتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ سابق امریکی سیکرٹری خارجہ ہنری کسنجر سے ملاقات بڑی دلچسپ تھی۔

بقول خورشید قصوری: ’میں نے اپنے سفیر سے کہا کہ ہنری کسنجر سے میری ملاقات کروائیں، میرا خیال تھا کہ لنچ یا ڈنر ہوگا تو انہوں نے کہا کہ ان کا یہ شیڈول مصروف ہوتا تھا لہذا وہ آپ کے ساتھ آ کر ہوٹل میں صبح چھ یا سات بجے ناشتہ کریں گے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ آئندہ میں نے انہیں کبھی ناشتے پر نہیں بلایا اور سفیر سے کہا کہ ہم آئندہ انہیں خود ہی جا کر مل آئیں گے۔

بقول خورشید قصوری: ’ہنری کسنجر امریکی قومی مفادات کا تحفظ ہر قیمت پر کرتے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ان (ہنری کسنجر) کی سب سے زیادہ بدنامی ویت نام جنگ میں ہوئی اور لوگ ان پر اس لیے زیادہ تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے جنگ کا پھیلاؤ کمبوڈیا تک کیا، جو کہ غیر ضروری تھا۔‘

بقول خورشید قصوری: ’ہنری کسنجر کے لیے پاکستانیوں کا اس لیے سافٹ کارنر ہے کہ ان کا پاکستانیوں کے لیے سافٹ کارنر تھا اور ان کے جو مخالفین ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں بہاریوں کا قتل کیا گیا۔ پاکستانیوں سے جو غلطیاں ہوئیں، وہ اس نوعیت کی نہیں، جس طرح کہا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ ایک متنازع شخصیت ہیں۔ دنیا میں ان کے سپورٹرز بھی بہت ہیں اور مخالفین بھی۔‘

انڈین سپریم کورٹ کی جانب سے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کو برقرار رکھنے کے فیصلے سے متعلق خورشید محمود قصوری نے کہا کہ اب انڈیا کے جو ججز ہیں، وہ پہلے جیسے نہیں رہے۔

’مسز گاندھی کو الہ آباد ہائی کورٹ کے جج نے فارغ کردیا تھا ایمرجنسی کے دور میں۔ یہ (انڈین سپریم کورٹ کے جج) چار سال سے کس لیے بیٹھے ہوئے تھے، بہت مشکل فیصلہ تھا، لٹکائے جا رہے تھے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’جب میں وزیر خارجہ تھا تو سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ ہوا، بہت سے پاکستانی مارے گئے، بہت سے زخمی ہوئے، لیکن سپریم کورٹ آف انڈیا نے سب کو فارغ کردیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کے معاملے میں مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ مودی صاحب نے یہ کردیا، مودی صاحب نے وہ کردیا، مسئلہ ختم ہوگیا تو میں کہتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر نہ مودی کے کہنے سے ختم ہوگا، نہ ہمارے کہنے سے ختم ہوگا۔ یہ مسئلہ ہے کشمیریوں کا۔ جس دن کشمیری آپ کے تسلط کو دل سے مان لیں گے، تو پاکستان جو مرضی چاہے۔

بقول خورشید قصوری: ’کشمیر کا مسئلہ زندہ رہے گا۔۔۔ یہ مسئلہ تب حل ہوگا جب پاکستان اور انڈیا مل کر بات کریں گے، جیسا کہ ہمارے دور میں ہوا تھا اور ہم حل کے قریب پہنچ گئے تھے، جس کا ذکر میں نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے، یہ بات چیت کے ذریعے ہے۔ کسی کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔‘

پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے خورشید قصوری نے مزید کہا کہ ’ہر ملک کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد اپنے ہمسایوں سے تعلقات بہتر کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے تعلقات چین سے اچھے ہیں، ایران سے مناسب ہیں، انڈیا اور افغانستان سے اچھے نہیں ہیں۔ یہ ہمارے مفاد میں ہے کہ ان سے بھی تعلقات اچھے ہوں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ افغانوں کی بے دخلی کا معاملہ بہتر انداز میں حل کیا جاسکتا تھا کہ یہاں پیدا ہونے والے افغان بچوں کو رجسٹریشن یا شہریت دی جاسکتی تھی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان