مذہبی اقلیتوں کے معاملے پر انڈیا کو ’خاص طور پر تشویش ناک ملک‘ قرار دینے پر زور

امریکہ میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے نے صدر جو بائیڈن انتظامیہ سے ’درخواست‘ کی ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنائے جانے پر انڈیا کو ’خاص طور تشویش ناک صورت حال کا حامل ملک‘ قرار دے۔

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی 27 نومبر، 2023 کو حیدرآباد میں تلنگانہ کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران حامیوں کو دیکھ کر ہاتھ لہرا رہے ہیں (اے ایف پی)

امریکہ میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے نے صدر جو بائیڈن انتظامیہ سے ’درخواست‘ کی ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنائے جانے پر انڈیا کو ’خاص طور تشویش ناک صورت حال کا حامل ملک‘ قرار دے۔

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف)، جو وفاقی حکومت کا خود مختار ادارہ ہے، کا کہنا ہے کہ انڈین حکومت کی جانب سے بیرون ملک سرگرم کارکنوں، صحافیوں اور وکلا کو خاموش کروانے کی حالیہ کوششیں مذہبی آزادی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔

کمیشن نے ایک بیان میں کہا ’یو ایس سی آئی آر ایف امریکی محکمہ خارجہ سے درخواست کرتا ہے کہ انڈیا کی جانب سے مذہب یا عقیدے کی آزادی کی منظم، جاری اور سنگین خلاف ورزیوں کی بنا پر انڈیا کو خصوصی تشویش کا حامل ملک قرار دیا جائے۔‘

کمشنر ڈیوڈ کری نے نشاندہی کی کہ کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور امریکہ میں سکھ علیحدگی پسند رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی ایک اور سازش میں انڈین حکومت کے ملوث ہونے کے الزامات ’انتہائی پریشان کن‘ ہیں۔

یو ایس سی آئی آر ایف کے عہدے داروں نے 2020 کے بعد سے ہر سال انڈیا کے خلاف سفارشات پیش کی ہیں۔ 1998 کے مذہبی آزادی کے امریکی ایکٹ کے تحت انڈیا کو نامزد کیا گیا۔

اس قانون کے تحت کسی ملک کے بارے میں مختلف پالیسی ردعمل دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پابندیوں کا نفاذ یا چھوٹ۔ تاہم یہ پابندیاں خود بخود نہیں لگتیں۔

گذشتہ سال نومبر سے اس زمرے میں چین، روس، شمالی کوریا، سعودی عرب، ایران، کیوبا، پاکستان، تاجکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔

کری نے کہا کہ انڈیا کا بیرون ملک مقیم مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے داخلی سطح پر جبر میں اضافہ ’خاص طور پر خطرناک ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘

انڈیا کی وزارت خارجہ نے 2020 میں اس سفارش کو مسترد کرتے ہوئے ’مخصوص اور متعصبانہ تبصروں‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا جب یہ پہلی بار کی گئی۔

واشنگٹن میں انڈین سفارت خانے کے حکام نے کمیشن کے بیان پر فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی انتظامیہ ہندو اکثریتی ملک میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی ذمہ داری سے بار بار انکار کر چکی ہے۔

چند روز قبل ایک انڈین شہری پر نامعلوم انڈین سرکاری ملازم کے ساتھ مل کر نیو یارک شہر میں مقیم سکھ رہنما پنوں کے قتل کی سازش کا الزام عائد کیا گیا۔

مودی حکومت نے انہیں شمالی انڈیا میں خودمختار سکھ ریاست کی وکالت کرنے پر ’دہشت گرد‘ قرار دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی حکام کو گذشتہ سال موسم بہار میں پنوں کے قتل کی مبینہ سازش کے بارے میں علم ہوا۔ مین ہیٹن کی وفاقی عدالت میں کھولی جانے والی فرد جرم میں اس نامعلوم سرکاری اہلکار کا ذکر کیا گیا۔

دستاویز میں 52 سالہ انڈین شہری نکھل گپتا پر کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے اور کرائے کے قاتل کے ذریعے قتل کروانے کی سازش کے الزامات عائد کیے گئے۔

امریکی اٹارنی ڈیمیئن ولیمز نے گپتا کے خلاف الزامات کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا: ’مدعا علیہ نے انڈیا سے یہاں نیو یارک شہر میں ایک انڈین نژاد امریکی شہری کو قتل کرنے کی سازش کی جو کھلے عام سکھوں کے لیے خودمختار ریاست کے قیام کے حق میں آواز بلند کر چکے ہیں۔‘

اطلاعات کے مطابق صدر جو بائیڈن نے ستمبر میں نئی دہلی میں جی 20 سربراہ اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے دوران بھی اس معاملے کو براہ راست اٹھایا تھا۔

فرد جرم میں کہا گیا کہ گپتا نے ایک ایسے شخص کے ساتھ رابطہ کیا جس کے بارے میں ان کا ماننا تھا کہ وہ ان کے جرم میں شریک ہیں تاکہ قتل کروانے کے لیے کرائے کا قاتل تلاش کرنے میں مدد مل سکے۔

تاہم مذکورہ شخص ڈی ای اے (ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن) کے ساتھ کام کرنے والے خفیہ ذریعہ تھے۔

نوٹ: مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ