سٹور سے چوری کا الزام، نیوزی لینڈ کی رکن پارلیمنٹ مستعفی

ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں انہیں کم از کم دو دکانوں سے چوری کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم رکن پارلیمنٹ نے اس رویت کو کام کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا نتیجہ قرار دیا۔

گرین پارٹی کی رکن پارلیمنٹ گلریز قہرمان نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے (یو ٹیوب چینل نیوزی لینڈ پارلیمنٹ)

نیوزی لینڈ کی گرین پارٹی کی رکن پارلیمنٹ گلریز قہرمان نے اپنے خلاف چوری کے متعدد الزامات کے بعد پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آئی ہے جس میں انہیں آکلینڈ اور ویلنگٹن میں بہترین کپڑوں کی کم از کم دو دکانوں سے سامان چوری کرنے کی کوشش کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

الزامات لگنے کے بعد اپنے پہلے بیان میں گلریز قہرمان نے کہا: ’مجھے پر یہ واضح ہے کہ میرے کام سے متعلق تناؤ میری ذہنی صحت بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ اس نے مجھے ایسے ردعمل پر مجبور کیا ہے جو اخلاق کے بالکل منافی ہے۔ میں اپنی حرکت پر معافی نہیں مانگ رہی، لیکن میں ان کی وضاحت کرنا چاہتی ہوں۔‘

انہوں نے کہا، ’عوام کو اپنے منتخب کردہ نمائندوں سے بہترین طرز عمل کی توقع رکھنا چاہیے۔ مجھ سے نہیں ہو پایا۔ میں معذرت خواہ ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میری ذہنی صحت کے لیے سب سے بہتر یہی ہے کہ میں پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دوں اور اپنی صحت یابی پر توجہ مرکوز کروں اور دنیا میں مثبت تبدیلی کے لیے کام کرنے کے دیگر طریقے تلاش کروں۔‘

10 جنوری کو نیوز ٹاک زیڈ بی پلس نے سب سے پہلے اس 43 سالہ رکن پارلیمنٹ کے خلاف الزامات کی اطلاع دی تھی، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے آکلینڈ کے مضافاتی علاقے پونسنبی میں واقع ایک مہنگے برانڈ سٹور سکاٹز بوتیک سے فیسٹیو سیزن کے دوران اشیا چرائیں۔

اگرچہ پولیس نے الزامات کی تحقیقات کا اعتراف کیا ہے، لیکن فی الحال انہوں نے مخصوص انفرادی شناخت کی تصدیق نہیں کی۔

سکاٹز بوتیک کے مالکان اور عملے نے مس گلریز قہرمان اور اپنے سٹور سے چوری کے دو الزامات کے بارے میں کوئی بیان دینے سے گریز کیا۔

پولیس فی الحال ایک اور سٹور Cre8iveworx سے سامان چوری کی بھی تفتیش کر رہی ہے، جس میں گلریز قہرمان ملوث ہیں۔

پیر کو بتایا گیا تھا کہ سٹور نے دوسرے بزنسز کو ای میلز بھیجی تھیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ ان کا ماننا ہے کہ گلریز قہرمان گذشتہ سال اکتوبر میں اس احاطے کے اندر تھیں۔

مہنگی اشیا فروخت کرنے والی کمپنی  Cre8iveworxنے 26 اکتوبر کو پولیس کو اس واقعے کی اطلاع دی۔ فی الحال پولیس نے رپورٹ موصول ہونے کی تصدیق کی اور کہا ہے کہ معاملے میں تحقیقات جاری ہیں۔

دریں اثنا گرین پارٹی کے رہنماؤں ماراما ڈیوڈسن اور جیمز شا نے کئی دنوں کی خاموشی کے بعد ایک پریس کانفرنس کی اور کہا کہ انہوں نے گلریز قہرمان کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’احتساب بہت ضروری ہے۔‘

ڈیوڈسن نے کہا کہ ’یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تمام ارکان پارلیمنٹ بھی انسان ہیں۔‘

شا نے کہا: ’ہمیں ان حالات سے مایوسی ہوئی ہے جن میں انہوں نے یہ کام کیا۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے اور ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ ان کے کاموں کا احتساب ہو اور انہیں وہ حمایت ملے جس کی انہیں ضرورت ہے۔

’ہم امید کرتے ہیں کہ یہ (تحقیقات) جتنی جلدی ممکن ہو سکے مکمل ہو جائیں گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ گلریز قہرمان کو اپنے پارلیمانی دور کے دوران جسمانی دھمکیوں کی وجہ سے تناؤ میں اضافہ کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا گلریز قہرمان کو ’رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے دن سے‘ ہی جنسی تشدد اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا بھی مسلسل سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

’اس کے نتائج ہوں گے۔ مجھے اس حقیقت سے ہمدردی ہے کہ انہیں دماغی پریشانی ہے۔‘

انہوں نے کہا، ’ہم صورت حال کیسے سنبھالتے ہیں اس پر ہر کوئی تنقید کرتا ہے۔ اس سے نتائج تبدیل نہیں ہوتے۔ بالآخر انہیں اپنے اعمال کے احتساب کا سامنا ہے اور وہ مدد چاہتی ہیں۔‘
اپنے بیان میں گلریز قہرمان نے کہا، ’یہ کوئی ایسا رویہ نہیں ہے جس کی میں وضاحت کر سکوں کیونکہ یہ کسی بھی طرح سے معقول نہیں ہے اور طبی معائنے کے بعد میں سمجھتی ہوں کہ میری صحت ٹھیک نہیں۔ مینٹل ہیلتھ پروفیشنل کا کہنا ہے میرے حالیہ طرز عمل کا تعلق شدید تناؤ پیدا کرنے والے واقعات اور پہلے سے غیر تسلیم شدہ صدمے سے ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، میں اپنی ذہنی صحت کے مسائل کے پیچھے چھپنا نہیں چاہتی، اور میں اپنے اعمال کی مکمل ذمہ داری لیتی ہوں جس پر مجھے بہت افسوس ہے۔‘

سال 2017 میں سیاست میں آنے سے قبل گلریز قہرمان انسانی حقوق کی وکیل کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔ وہ نیوزی لینڈ کی پہلی پناہ گزین رکن پارلیمنٹ تھیں۔ اپنے سیاسی کردار میں، ان کے پاس انصاف، خارجہ امور، انسانی حقوق، دفاع، پناہ گزینوں اور خواتین سمیت نو قلمدان تھے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا