54 سال میں صرف ایک سکھ بلوچستان کا اقلیتی رکن نامزد ہو سکا

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں سکھوں کے 1500 خاندان آباد ہیں لیکن کسی سیاسی جماعت نے آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد اقلیتوں کی مخصوص نشست کے لیے اس مذہب سے کسی کو نامزد نہیں کیا۔

صوبہ بلوچستان میں کسی قومی یا مقامی سیاسی جماعت نے عام انتخابات کے بعد اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں پر سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے کسی امیدوار کو نامزد نہیں کیا ہے۔

آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد کامیاب سیاسی جماعتوں کے منتخب اراکین کی تعداد کی مناسبت سے خواتین اور مذہبی اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر نامزدگیاں ہوں گی، جس کے لیے سیاسی جماعتوں نے امیدواروں کے ترجیحی ناموں کی فہرستیں الیکشن کمیشن میں جمع کروا دیں، جب کہ ان کی جانچ پڑتال کے بعد حتمی فہرستیں بھی جاری ہو گئی ہیں۔

گذشتہ تین دہائیوں کی طرح اس مرتبہ بھی بلوچستان میں بسنے والے سکھ شہریوں کو اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے صوبائی و قومی سطح کی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے نظر انداز کر دیا ہے۔

اس حوالے سے بلوچستان سکھ کمیونٹی کے چیئرمین جسبیر جی سنگھ نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’آئین میں لکھا ہے اور ہمارا حق بھی ہے کہ کسی مذہب کا ایک بندہ یا ایک گھرانہ بھی ہے تو ریاست اسے پورے حقوق دے گی۔ بلوچستان میں سکھوں کی آبادی بھی زیادہ ہے لیکن مخصوص نشستوں پر ہمیں نمائندگی نہیں دی گئی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہری پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ان کی تعداد کم ہونے کے باوجود کافی نشستیں سکھ کمیونٹی کو دی گئی ہیں، جب کہ پنجاب میں بھی ہمیشہ سے سکھوں کی ایک دو نشستیں چلی آرہی ہیں، لیکن بلوچستان میں سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

جسبیر جی سنگھ نے بتایا کہ نواب اکبر بگٹی کے دور میں سینت رام سنگھ کو مخصوص نشست پر رکن صوبائی اسمبلی نامزد کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے بعد ہمیں کبھی بھی کسی بھی جماعت کی جانب سے نمائندگی نہیں دی گئی اور ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔‘

30 مارچ 1970 کو ون یونٹ کے خاتمے کے بعد معرض وجود میں آنے والی بلوچستان اسمبلی میں گذشتہ 54 سالوں کے دوران صرف 1993 کی صوبائی اسمبلی میں سینت رام سنگھ نامی سکھ کو مخصوص نشست پر نامزد کیا گیا تھا۔

جسبیر سنگھ کے مطابق: ’نمائندگی نہ ملنے کے باعث سکھ کمیونٹی کے لوگوں کو وہ حقوق نہیں ملتے، جن کے وہ حقدار ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے 1500 خاندان آباد ہیں، جو کوئٹہ، دالبندین، نوکنڈی، نصیر آباد، جعفر آباد، سبی، مچھ کے علاوہ پشتون بیلٹ میں ژوب، زیارت اور چمن میں پھیلے ہوئے ہیں جبکہ سکھوں کے کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان میں 20 گردوارے ہیں۔

بقول جسبیر سنگھ: ’سکھ شہریوں کے لیے مختص فنڈز مستحق افراد کو نہیں پہنچ پاتے جب کہ سب سے بڑا نقصان ان کی آنے والی نسلوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ نامزد ہونے والے اقلیتی ایم پی اے اپنے مذہب کے لوگوں کے لیے کام کرے گا نہ کہ سکھ شہریوں کو آگے لے کر جائے گا۔‘

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جتنی بھی کوشش کر لیں ان کا حصہ انہیں نہیں مل پاتا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست