الیکشن 2024: حتمی نتیجہ صدر مملکت کے انتخاب تک محیط

آٹھ فروری کے انتخابات کا سرکاری نتیجہ 22 فروری تک آئے گا۔ پھر سپیکر اور وزیراعظم کا فیصلہ ہو گا، جس کے بعد 11 مارچ تک سینیٹ کے انتخابات ہونا ہیں۔ مارچ کے دوسرے ہفتے میں صدر مملکت کے انتخاب کا عمل شروع ہوگا۔

چار فروری کی اس تصویر میں پشاور میں کارکن جمعرات کو ہونے والی پولنگ کے لیے بیلٹ باکس پورے ملک میں قائم کیے گئے پولنگ سٹیشنز کو بھیج رہے ہیں (اے ایف پی) 

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آٹھ فروری کے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ 26 کروڑ بیلٹ پیپروں کی پرنٹنگ مکمل ہوگئی ہے اور انہیں فوج کی نگرانی میں متعلقہ ریٹرننگ افسران تک پہنچا دیا گیا ہے۔

سات فروری کو ریٹرننگ افسران کی نگرانی میں پولنگ کا سامان، جو حساس ترین انتخابی مواد ہوتا ہے، 90 ہزار سے زائد پریزائیڈنگ افسران کے حوالے کر دیا جائے گا۔

الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے سات لاکھ بیلٹ باکسز کا انتظام کیا ہے، ملک بھر میں دو لاکھ 76 ہزار سے زیادہ پولنگ بوتھ قائم کیے جا رہے ہیں، ہر پولنگ بوتھ کے لیے دو بیلٹ باکس فراہم کیے جا رہے ہیں اور پولنگ سٹیشن پر 1200 اور 1500 کے لگ بھگ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

ٹیکنالوجی کے تحت ایک گھنٹے میں 40 کے لگ بھگ ووٹرز اپنا ووٹ ڈال سکیں گے۔ ملک بھر میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے پانچ لاکھ 52 ہزار بیلٹ بکس استعمال ہوں گے۔

سپریم کورٹ میں راجہ سلمان اکرم نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بطور سیاسی پارٹی تسلیم کروانے کے لیے جو آئینی پٹیشن دائر کی ہوئی ہے، غالباً اس کا فیصلہ عام انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہی کیا جا سکے گا۔ ابھی آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد ہی صحیح صورت حال سامنے آئے گی۔

دنیا بھر میں انتخابات کا معروف و مشہور ذریعہ خفیہ ووٹ ہے۔ مقصد اس کا یہ ہے کہ ملک کی اکثریت کا کسی ایک بات، پارٹی اور شخصیت پر اجتماعی اور عمومی اتفاق ہو، تاکہ عوام کی رائے سے جو لوگ منتخب ہو کر آئیں وہ نظامِ حکومت کو چلائیں۔

شریعت کی رُو سے ووٹ ایک امانت ہے۔ صحیح معنوں میں جمہوری حکومت اسی وقت بن سکتی ہے جب رائے دہندگان ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو مطلوبہ معیار پر پورا اترتے ہوں۔

ووٹ دینے والا حق رائے دہی کے استعمال کے وقت امیدوار کے بارے میں یہ گواہی دیتا ہے کہ میں جس امیدوار کو ووٹ دے رہا ہوں، یہ اس عہدے اور فیصلے کے زیادہ لائق ہے، جس مقصد کے لیے میں اسے ووٹ دے رہا ہوں اس حوالے سے اس پر میرا یقین ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ انتخابات کا مرحلہ خیر و عافیت سے گزر جائے۔

ووٹ کے استعمال کرنے کے بارے میں بنگلہ دیش کے پولنگ سٹیشن کے اندر بنگلہ زبان میں یہ پوسٹر سرکاری طور پر آویزاں ہوتا ہے کہ ووٹ ڈالنے سے پہلے امیدوار کے بارے میں ادراک ہونا چاہیے کہ دانستہ طور پر نااہل امیدوار کو ووٹ دینا ظلم کے مترادف ہے اور اس کے گناہ میں وہ برابر کا شریک ہے۔

میں نے یکم جنوری 2009 کو بنگلہ دیش کے انتخابات کا مشاہدہ کرتے ہوئے یہ عبارت ہر پولنگ سٹیشن پر لگے سرکاری پوسٹر پر دیکھی۔ میں نے چیف الیکشن کمشنر بنگلہ دیش سے جب استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بنگلہ دیش کے عوام شعوری طور پر اسلام کے قریب ہیں، ان کو احساس دلایا گیا ہے کہ وہ جس کو منتخب کرنے جا رہے ہیں، اس کے اعمال میں وہ برابر کے شریک ہوں گے۔

میں نے اسی بنیاد پر انتخابی اصلاحات کمیٹی کے روبرو یہ تجویز پیش کی تھی کہ بنگلہ دیش کی طرز پر ایسا ہی پوسٹر پولنگ سٹیشن پر سرکاری طور پر آویزاں کیا جائے، لیکن یہ تجویز مفادات کی زد کا شکار ہوگئی۔

پاکستانی جمہوریت آئینِ پاکستان کے مطابق ہے اور آئین قرارداد پاکستان کے 22 نکات کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے۔ 1973 کے آئین میں اس بات کو ضروری قرار دے دیا گیا ہے کہ یہاں جو بھی قانون سازی ہوگی وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہوگی۔

یہ ہمارے آئین کا حصہ ہے جسے کوئی منسوخ یا تبدیل نہیں کر سکتا، اس لیے پاکستانی جمہوریت وہ نہیں ہے جو مغرب میں رائج ہے بلکہ ہمارے ملک کی جمہوریت قرآن و سنت کی پابند ہے۔

آٹھ فروری کے عام انتخابات کے غیرحتمی نتائج نو فروری تک سامنے آ جائیں گے اور ضلعی ریٹرننگ افسران فارم 46 پر نتائج، جو حتمی نتائج کے زمرے میں آتے ہیں، تین دن کے اندر بھجوانے کے پابند ہوتے ہیں۔

اسی طرح انتخابات کے دوران اخراجات کے گوشوارے، کامیاب ہونے والے ارکان کو 10 دن کے اندر اندر جمع کروانے ہوتے ہیں۔

ایسی صورت میں یہی روایت رہی ہے کہ ارکان اسمبلی اپنے گوشوارے تیار کر چکے ہوتے ہیں اور وقت مقررہ پر یہ کارروائی مکمل ہو جاتی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 233 کے مطابق الیکشن کمیشن 14 دنوں میں گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا پابند ہے لہٰذا امکان یہی ہے کہ 22 فروری تک تمام آئینی و قانونی ضروریات پوری ہوجائیں گی اور الیکشن کمیشن 22 فروری تک گزٹ نوٹیفیکیشن قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر کو بھجوا دے گا۔

قائدِ ایوان اور سپیکر کا انتخاب بھی 25 فروری تک مکمل ہو جائے گا۔

آئین کے مطابق پارلیمنٹ کی اہم ترین اکائی سینیٹ کے انتخابات بھی 11 مارچ 2024 تک مکمل کرنا ہوں گے۔ الیکشن کمیشن، سینیٹ کے انتخابات کا شیڈول 25 فروری کو جاری کرنے کا آئینی طور پر پابند ہے کیونکہ سینیٹ کے 52 ارکان 11 مارچ کی رات 12 بجے تک مستعفی ہو جائیں گے۔

12 مارچ کو چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات بھی آئین کے مطابق کروانے ہیں اور جب چھ الیکٹرول کالج مکمل ہو جائیں گے تو صدر کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن مارچ کے دوسرے ہفتے میں شیڈول جاری کر دے گا۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے نگران وزیراعظم کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ اگلی حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔ ان کا یہ موقف درست ہے اس لیے کہ نگران حکومت کو جو اختیارات دیے گئے تھے اور یہ کہا گیا تھا کہ عالمی سطح کے جو معاہدے آئی ایم ایف کے ساتھ سابقہ حکومت کر چکی ہے ان پر عمل درآمد کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ اختیارات انہیں الیکشن ایکٹ کی سیکشن 230 میں ترمیم کر کے دیے گئے تھے۔ انہیں اداروں کی نجکاری کا اختیار نہیں دیا گیا تھا۔ یہ اختیارات نگران حکومت کو حاصل نہیں اس لیے الیکشن کمیشن نے انہیں یہ ہدایت جاری کی ہے۔

ایف آئی اے میں جو وسیع پیمانے پر انتظامی اصلاحات ہو رہی ہیں ان پر بھی الیکشن کمیشن نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نگران حکومت کا مینڈیٹ نہیں اور نگران حکومت صرف روزمرہ کے معاملات پر عمل درآمد کرنے کی مجاز ہے۔

ازسرِنو کسی قسم کی کوئی قانون سازی یا انتظامی اصلاحات کرنا نگران حکومت کے مینڈیٹ میں نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کا الیکشن ایکٹ کی سیکشن 230 کے حوالے سے یہ فیصلہ بھی درست ہے۔

اسی طرح انتخابی کمیشن نے باقی صوبوں کو بھی ہدایات جاری کی ہوئی تھیں کہ وہ روزمرہ کے معاملات خوش اسلوبی سے پورے کریں لیکن کسی جگہ بھی کسی قسم کی بھی کوئی قانون سازی نہ کی جائے۔

اسی طرح پنجاب حکومت کو بھی ایک کلین چٹ دی گئی تھی کہ سابقہ حکومت کے جو تعمیراتی کام رکے ہوئے تھے ان پر عمل درآمد کیا جائے۔ یہ تمام اقدامات جو الیکشن کمیشن نے اٹھائے یہ درست ہیں۔

نگران حکومت کا یہ کہنا کہ سابقہ حکومت نے ہمیں یہ اختیارات دیے تھے وہ صرف انٹرنیشنل معاہدے کے حوالے سے تھے، جو آئی ایم ایف سے معاہدے کیے گئے تھے، ان پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے تھے، لیکن روزمرہ کے معاملات اور ملکی معاملات میں کسی قسم کی قانون سازی، انتظامی اصلاحات و مالی اصلاحات کرنے کے انہیں اختیارات نہیں دیے گئے تھے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر