’کیا آپ میرے پارلیمان آنے پر خوش ہیں؟‘: نواز شریف کا سوال

قومی اسمبلی کے جمعرات کو ہونے والے افتتاحی اجلاس کی کوریج کے لیے جانے والی انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار قرۃ العین شیرازی کی آنکھوں دیکھا حال۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف پارلیمان ہی نہیں بلکہ ایوان زریں بھی تقریباً چھ سال بعد پہنچے تھے (پاکستان مسلم لیگ ن)

قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کی کوریج کرنے پہنچی تو پارلیمان کے مضافات میں واقع ڈی چوک پر گاڑیوں کا تاحد نظر ہجوم تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ سیاسی جماعتوں کے حامی پارلیمان کے اطراف میں جمع ہیں۔

تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد پارلیمان کی حدود میں داخل ہوئی تو گیٹ ون پر صحافیوں، سیاست دانوں اور ان کے ساتھ آئے مہمانوں کا ہجوم دیکھا۔

گذشتہ روز رات گئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا تھا کہ مہمانوں کے لیے جاری کردہ اپر وزیٹر گیلری کے کارڈ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود نومنتخب اراکین کے ہمراہ متعدد مہمان پہنچے ہوئے تھے۔

ابھی پارلیمان کی راہ داریوں میں داخل ہوئی تھی تو ایک دم شور مچا کہ نواز شریف آ گئے۔

تمام صحافی اس جانب دوڑے، ان کے ساتھ میں بھی چلی گئی۔ تمام صحافی نواز شریف کی صحافتی زبان میں ’ایک بائٹ‘ یعنی کم از کم پارلیمان پہنچنے پر پہلا جملہ یا جھلک ریکارڈ کرنا چاہتے تھے۔

صحافی ابھی آگے بھی نہیں بڑھے تھے کہ ان کے سکیورٹی سٹاف نے انہیں دھکہ دے کر پیچھے کر دیا۔ صحافیوں کو یہ بات کافی ناگوار گزری، ان میں سے ایک نے کہا ’گارڈز کے ذریعے صحافیوں کو دھکیلنے کی عجیب روایت بنائی ہوئی ہے۔ تھوڑی تہذیب ہونی چاہیے کہ دوسرے کو انسان سمجھا جائے۔‘ دوسرے نے کہا ’ان کے اس رویے کی وجہ سے ان سے احتجاجاً سوال و جواب کرنے ہی نہیں چاہییں۔‘

اس سے کچھ ہی دیر بعد نواز شریف نے صحافیوں سے پوچھا: ’کیا آپ میرے پارلیمان آنے پر خوش ہیں؟‘ جس پر متعدد صحافی مسکرا کر کہنے لگے ’آپ بات کریں گے تو خوش ہوں گے۔‘

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے کامیاب اراکین پارلیمان پہنچے تو کئی افراد نے جماعت کے بانی عمران خان کا ماسک پہن رکھا تھا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے قبل جب ایوان میں عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کا سلسلہ شروع ہوا تو ان میں کئی نئے چہرے بھی شامل تھے۔

اس دوران تقریباً دو سال کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے کامیاب اراکین بھی ایوان میں داخل ہوئے۔ ان میں سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کا ماسک پہنے علی محمد خان بھی تھے۔ ان کے ہمراہ شہریار آفریدی بھی تھے اور یہ دونوں اراکین کافی پرجوش اور خوش نظر آئے۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ نومنتخب رکن اور عمران خان کے نامزد چیئرمین گوہر خان اپنی والدہ کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے۔

سال 2022 میں عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حکومت کھو دی تھی، جس کے بعد پی ٹی آئی کے اس وقت کے اراکین قومی اسمبلی سے احتجاجاً مستعفیٰ ہو گئے تھے، اور تقریباً 22 ماہ بعد اس وقت کے پی ٹی آئی اراکین اور آج کے سنی اتحاد کونسل کے رہنماؤں نے ایوان میں قدم رکھا۔

ایوان میں جب ’ووٹ چور اور مینڈیٹ چور‘ کے نعرے لگائے جا رہے تھے تو اس دوران مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور صدر شہباز شریف ایوان میں داخل ہوئے، اور ایوان میں ’شیر آیا‘ کے نعرے گونجنے لگے۔

اجلاس کے آغاز کے بعد بلاول بھٹو ایوان میں پہنچے اور دیگر قائدین کو ان کی نشستوں پر جا کر ملے۔ سپیکر راجہ پرویز اشرف نے تین ادوار میں کامیاب اراکین سے حلف لیا۔ حلف لیے جانے کے فوراً بعد پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین نے دوبارہ نعرے بازی شروع کر دی۔

اس دوران سپیکر قومی اسمبلی کے لیے سردار ایاز صادق اور ملک محمد عامر ڈوگر کے کاغذات نامزدگی سیکرٹری قومی اسمبلی کو ایوان میں ہی جمع کروائے گئے جبکہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے لیے سید غلام مصطفی شاہ اور جنید اکبر کے کاغذات نامزدگی جمع کروائے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس اجلاس میں 302 ممبران قومی اسمبلی نے حلف اٹھایا اور رول آف ممبر پر دستخط کیے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف پارلیمان ہی نہیں بلکہ ایوان زریں بھی تقریباً چھ سال بعد پہنچے تھے۔ وہ رول آف ممبرز پر دستخط کرنے جا رہے تھے تو کسی نے ان کی جانب بظاہر عمران خان کا ماسک کی طرح کوئی چیز اچھالی۔ شہباز شریف نے اسے نظرانداز کر دیا۔

دوسری جانب اجلاس کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے اپنی گھڑی اتار کر ایوان میں لہرانا شروع کر دی۔ یہ دیکھنے کے بعد پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ نو منتخب رکن جمشید دستی نے اپنا جوتا اتار کر خواجہ آصف کو دکھایا۔

پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان رول آف ممبر پر دستخط کرنے پہنچے تو پہلے ’کون بچائے گا پاکستان، عمران خان‘ کے نعرے لگائے۔ دیگر رہنماؤں نے بھی دستخط کرتے ہوئے عمران خان کے حق میں نعرے لگائے اور ساتھ ان کی تصویر بھی لہرائی۔

اسی طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے منسلک رہنماؤں نے بھی روسٹرم پر جا کر اپنے قائدین کے حق میں نعرے لگائے۔

پی ٹی آئی رہنما چونکہ اتنے عرصہ بعد پارلیمان واپس آئے تو کئی مبصرین ان کی جانب سے شدید احتجاج کی توقع کر رہے تھے تاہم آج ماضی کے برعکس اراکین ایوان میں شدید غم و غصے کا اظہار کرتے نظر نہیں آئے۔

جہاں مہمانوں کی گیلریوں میں شور کی اجازت نہیں ہوتی وہاں سے بھی سیاسی نعرے گونجتے رہے۔ جہاں گیلری سے آصفہ بھٹو نے ’پھر صدر بنے گا زرداری، اگلی باری پھر زرداری‘ کے نعرے لگائے وہیں دوسری جانب نومنتخب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی نواز شریف کو دیکھ کر مسکراتی نظر آئیں۔

اجلاس ملتوی کیے جانے کے بعد راہداریوں میں واپس آئی تو خواجہ آصف مل گئے۔ ان سے مولانا فضل الرحمان کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے بائیکاٹ سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’ہم ان کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، انہیں منانے کی کوشش کریں گے۔ ابسلیوٹلی ناٹ کیا اب ابسلیوٹلی یس ہو گیا ہے؟‘

اس کے بعد سینیٹ سیکرٹریٹ حکام نے ملاقات کے دوران انکشاف کیا کہ سینیٹ پیپلز پارٹی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط سے متعلق جواب دے گا اور الیکشن کمیشن کو اس معاملے پر خط لکھ کر معاملے کو واضح کرنے کا کہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست