بائیڈن پاکستان کی نئی حکومت کو تسلیم نہ کریں: امریکی قانون ساز

امریکی ایوان کانگریس کے 31 اراکین نے صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کے نام لکھے گئے ایک خط میں زور دیا ہے کہ وہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات ہونے تک پاکستان میں نئی حکومت کو تسلیم نہ کریں۔

امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ اینٹنی بلنکن 21 نومبر 2023 کو وائٹ ہاؤس کے روزویلٹ روم میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ایک میٹنگ کے دوران بات کر رہے ہیں (ڈریو اینجرر/ اے ایف پی)

امریکی ایوان کانگریس کے 31 اراکین نے صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کے نام لکھے گئے ایک خط میں زور دیا ہے کہ وہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات ہونے تک پاکستان میں نئی حکومت کو تسلیم نہ کریں۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان کے 31 ڈیموکریٹک ارکان کے دستخطوں کے ساتھ اس خط کی قیادت گریگ کیسر اور سوسن وائلڈ نے کی۔ دستخط کرنے والوں میں پرمیلا جے پال، راشدہ طلیب، رو کھنہ، جیمی راسکن، الہان عمر، کوری بش اور باربرا لی جیسے ارکان بھی شامل تھے۔

پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات  کے دن موبائل اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کئی خدشات نے جنم لیا، انتخابی عمل کے دوران گرفتاریوں، تشدد اور نتائج میں غیرمعمولی تاخیر کے نتیجے میں متعدد سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات سامنے آئے۔

ان الزامات کے بعد امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات پر زور دیا تھا۔

بدھ کو لکھے گئے خط میں امریکی قانون سازوں نے صدر جو بائیڈن اور اینٹنی بلنکن پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں نئی حکومت کو اس وقت تک تسلیم کرنے سے گریز کریں جب تک کہ انتخابی مداخلت کی مکمل، شفاف اور قابل اعتماد تحقیقات نہیں کر لی جاتیں۔

خط میں امریکی قیادت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پاکستانی حکام پر سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالے اور پاکستان میں امریکی سفارت کاروں کو ایسے معاملات کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے اور ان کی رہائی کی وکالت کرنے کا کام سونپے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خط میں جو بائیڈن اور اینٹنی بلنکن پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستانی حکام پر واضح کریں کہ اگر متعلقہ اقدامات نہ کیے گئے تو واشنگٹن پاکستان کے ساتھ فوجی اور دیگر تعاون روک سکتا ہے۔

انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور کچھ دیگر جماعتوں نے مخلوط حکومت بنانے پر اتفاق کیا ہے تاہم جیل میں بند سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ امیدواروں نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ 93 نشستیں حاصل کیں لیکن ان کے پاس حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا ہے اور آئی ایم ایف کو مبینہ دھاندلی کی تحقیقات تک نئی حکومت کے ساتھ مالی تعاون نہ کرنے کے لیے خط بھی لکھا ہے۔

مسلم لیگ ن کی 79 اور پیپلز پارٹی کی 54 نشستیں ملا کر حکومت بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت حاصل ہو جاتی ہے تاہم اتحاد میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سمیت چھوٹی جماعتیں بھی شامل ہوں گی۔

عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 2018 کے قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، تاہم انہیں اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں معزول کر دیا گیا تھا۔بعدازاں ان کے خلاف متعدد قانونی مقدمات چلائے گئے اور متعدد مقدمات میں قید کی سزا کے ساتھ بطور امیدوار انہیں نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ