آٹھ فروری کے انتخابات 2018 سے زیادہ غیرشفاف رہے: پلڈاٹ

پلڈاٹ نے ’عام انتخابات 2024 کے معیار کی جائزہ‘ رپورٹ میں فروری کے اانتخابات کو ملک میں ہونے والے گذشتہ دو عام انتخابات (2018 اور 2013) سے کم شفاف قرار دیا ہے۔

آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد ملک بھر میں مختلف سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

تھینک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے ’عام انتخابات 2024 کے معیار کا جائزہ‘ رپورٹ میں 8 فروری کے عام انتخابات کو ملک میں ہونے والے گذشتہ دو عام انتخابات (2018 اور 2013) سے کم شفاف قرار دیا ہے۔

پلڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق آٹھ فروری کے انتخابات کا مجموعی طور پر شفافیت کا سکور 49 رہا، جو 2013 اور  2018 کے انتخابات سے بالترتیب آٹھ اور تین فیصد کم ہے۔

پلڈاٹ نے اسلام آباد میں جاری ایک بیان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مؤثر ابلاغ کے ذریعے مختلف سوالات کے جواب فراہم کرنے اور انتخابی عمل پر اعتماد بحال کرنے کی ضرورت پر زور دینے کے علاوہ انتخابی نتائج کو مرتب کرنے، ان کی ترسیل اور انضمام کے حوالے سے فروری کے انتخابات کے دوران ہونے والی تاخیر اور خامیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

پلڈاٹ کے مطابق ’عام انتخابات 2024 کے معیار کا جائزہ‘ رپورٹ اس مقامی غیر سرکاری تھینک ٹینک کی گذشتہ عام انتخابات کی جائزہ رپورٹوں کا تسلسل ہے، جو پلڈاٹ نے 2002 کے بعد ہر انتخابی دور کے دوران شائع کی ہیں۔

’2024 کی جائزہ رپورٹ پلڈاٹ کے آزادانہ تجزیے اور ایک سوالنامے پر مبنی ہے، جسے سول سوسائٹی، سیاست دانوں، وکلا، فعالیت پسند افراد، ماہرین تعلیم، ریٹائرڈ بیروکریٹس اور ریٹائرڈ فوجی حکام کے علاوہ سیاسی طور پر آگاہ نوجوانوں کے ایک حصے نے سکور کیا۔

جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں 2013 کے بعد انتخابات کی شفافیت کے سکور میں مسلسل کمی ملک میں جمہوری عمل کے کمزور ہونے کی علامت ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں 2018 کے بعد سے قبل از انتخاب کا مرحلہ 50 فیصد شفافیت کے سکور پر رک گیا ہے، جبکہ ووٹنگ کے عمل کا سکور 2018 میں 64 فیصد سے 2024 میں کم ہو کر 58 فیصد پر آ گیا ہے۔ یہی سکور 2013 میں 44 فیصد رہا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا: ’یوں محسوس ہوتا ہے کہ 2018 کے بعد سے نتائج مرتب کرنے کے انتظام میں کوئی موثر پیش رفت نہیں کی گئی اور اس کا سکور 40 فیصد پر ہی رکا ہوا ہے۔‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بعد از انتخاب عمل 2002 کے 40 فیصد سکور سے مماثل کم ترین رہا انتخابی نتائج پر عوامی عدم اعتماد میں اضافے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ 

رپورٹ میں مندرجہ ذیل مسائل پر روشنی ڈالی، جن کے باعث الیکشنز 2024 کے معیار کے سکور میں کمی واقع ہوئی۔

1۔ قبل از انتخاب مرحلے کے مٰن انتخابی شیڈول میں کافی تاخیر، سیاسی جبر، نگران حکومتوں اور ریاستی اداروں کی جانب سے غیر جانبداری کا فقدان اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی خرابی دیکھی گئی۔

2۔ پولنگ کے روز موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی معطلی نے نہ سرف الیکشن منیجمنٹ سسٹم پر شکوک پیدا کیے بلکہ انتخابی عمل میں عوام کی شمولیت کے لیے بھی مشکلات پیدا کیں۔

3۔ پولنگ کے بعد الیکشن ایکٹ میں طے شدہ وقت سے زیادہ عارضی نتائج کے اعلان میں تاخیر نے انتخابات کی ساکھ پر سنگین سوالات کو جنم دیا۔

4۔ فارمز 45 اور 47 کے درمیان بڑے پیمانے پر تضاد کے الزامات نے بھی انتخابات کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا۔

5۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر فارمز 45، 46۔ 48، 49 کی اشاعت میں تاخیر انٹکابی قانان کی خلاف ورزی ہے، جس نے الیکشن کی ساکھ مزید نقصان پہنچایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

6۔ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کی ایلوکیشن پولنگ کے روز سے 25 دنوں تک ایک بڑا تنازع بنی رہی، جب کہ دوسری تمام سیاسی جماعتوں کو خواتین اور اقلیتی نشستیں دے دی گئیں تھیں۔

پولنگ کے دن کا مرحلہ

پلڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق پولنگ کے روز عملے کی کارکردگی، پولنگ سٹیشنوں کے معیار اور ووٹنگ کے اوقات کے دوران حفاظتی اقدامات کے جائزے کے بعد اس حصے (پولنگ کے روز) کا سکور 58 فیصد رہا، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ مرحلہ 2018 کے انتخابات کی نسبت زیادہ خراب رہا۔

تاہم یہ مرحلہ 2013 کے انتخابات کے دوران اس مرحلے (44 فیصد سکور) سے بہتر رہا۔

گنتی اور نتائج کی ترسیل وغیرہ کا مرحلہ

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پولنگ کے روز کے مرحلے کا دوسرا حصہ ووٹوں کی گنتی، پولنگ سٹیشنز سے ریٹرننگ افسران کو نتائج مرتب کرنے اور منتقلی، حلقوں کے نتائج کو یک جا کرنے اور غیر حتمی نتائج کے اعلان کا جائزہ لیا گیا اور اس مرحلے کو 40 فیصد سکور دیا گیا، جو 2018 کے انتخابات کے برابر لیکن 2013 کے ایکشنز سے چھ فیصد کم رہا، جب کہ 2002 اور 2008 میں یہی سکور 47 فیصد تھا۔

بعد از پولنگ کا دن مرحلہ

رپورٹ کے مطابق جائزے کے بعد از انتخاب مرحلے میں انتخابی نتائج پر سیاسی جماعتوں، انتخابی مبصرین اور رائے دہندگان کا ردعمل، حتمی نتائج کا مرتب کرنا اور ان کی اشاعت اور وفاقی و صوبائی سطحوں پر حکومتوں کی تشکیل مکی عمل کے جائزے کے بعد اس مرحلے کو 40 فیصد سکور حاصل ہوا، جو ایک انتہائی کم سکور ہے۔

سفارشات

پلڈاٹ نے اپنی سفارشات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بعض مسائل کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنے کا مشورہ دیا۔

رپورٹ نے ان مسائل میں (1)عارضی نتائج کی ترسیل، انضمام اور اعلان میں تاخیر (2) الیکشن منیجمنٹ سسٹم کی غیر فعالی کے حوالے سے نتائج کے اجرا کی آخری تاریخ کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی منصوبہ بندی کا فقدان اور (3) انتؓاکات ایکٹ 2017 کے تحت مطلوبہ فارم 45، 46، 48 اور 49 کی دستخط شدہ کاپیاں شائع کرنے میں تاخیر۔

پلڈاٹ نے آٹھ فروری کے انتخابات سے متعلق تنازعات کو ختم کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے ایک واضح راستہ متعین کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے دو ایسے راستے تجویز کیے جن میں الیکشن ٹریبونلز کو ہر کیس کی بنیاد پر تنازعات حل کرنے کا موقع دیا جانا اور 2013 کے انتخابات کے طرز پر الیکشن ٹریبونلز کے علاوہ انکوائرہ کمیشن تشکیل دیا جانا، جس پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بحث بھی ہو۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کا موقف

انڈپینڈنٹ اردو نے پلڈاٹ کی رپورٹ سے متعلق الیکشن کمیشن کا موقف جاننے کے لیے ادارے کے متعلقہ اہلکاروں سے رابطہ کیا لیکن اس رپورٹ کے فائل ہونے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

تاہم 12 فروری 2024 کو جاری کیے گئے بیان میں الیکشن کمیشن نے آٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اکا دکا ایسے امکانات کا انکار نہیں کیا تھا۔

کمیشن نے کہا تھا کہ ایسے واقعات یا امکانات کے تدارک کے لیے متعلقہ فورمز موجود ہیں اور الیکشن کمیشن ان دنوں میں بھی دفتری اوقات کے بعد بھی دیر تک ایسی شکایات کو وصول کر رہا ہے اور ان پر فوری فیصلے بھی کیے جا رہے ہیں۔

منگل کو آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت 263 ویں کور کمانڈرز کانفرنس کے اختتام پر ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ ’پاکستان کی مسلح افواج نے دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق عام انتخابات 2024 کے انعقاد کے لیے عوام کو محفوظ ماحول فراہم کیا اور اس سے زیادہ افواجِ پاکستان کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق فورم نے کہا کہ ’کچھ مخصوص مگر محدود سیاسی عناصر، سوشل میڈیا اور میڈیا کے کچھ سگمنٹس کی طرف سے مداخلت کے غیر مصدقہ الزامات کے ساتھ پاکستان کی مسلح افواج کو بدنام کر رہے ہیں جو انتہائی قابل مذمت ہے۔‘

فورم کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ گڈ گورننس، معاشی بحالی، سیاسی استحکام اور عوامی فلاح و بہبود جیسے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے، ایسے مفاد پرست عناصر کی پوری توجہ اپنی ناکامیوں کو پس پشت ڈال کر سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال پیدا کرنے پر مرکوز ہیں۔‘

مسلم لیگ ن کا مؤقف

اس سلسلے میں نومنتخب وزیر اعظم شہباز شریف کے جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سے رابطہ کیا گیا تو مرکزی سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے پلڈاٹ کی رپورٹ میں سے کچھ اعداد و شمار ایک جدول کی شکل میں انڈپینڈنٹ اردو کو واپس بھیجے۔

احسن اقبال کی جانب سے موصول ہونے والے جدول ان صفحات پر دیکھی جا سکتی ہے۔ 

احسن اقبال نے جدول میں بتانے کی کوشش کی کہ 2024 اور 2018 کے انتخابات کے لیے پلڈاٹ نے ووٹوں کی گنتی، تالیف، ترسیل، انضمام اور عارضی نتائج کے اعلان کو ایک جیسا (40 فیصد) سکور دیا، جب کہ انتخابات سے قبل کے مراحل کو بھی دونوں الیکشنز میں 50 فیصد سکور حاصل ہوا۔

انہوں نے اپنی جدول کو ’2018 کے مقابلے میں عام انتخابات 2024  کے دوران مثبت علاقے‘ کا نام دیا۔

پلڈاٹ

پلڈاٹ کا کہنا ہے کہ وہ ایک آزاد، غیر جانبدارانہ اور غیر منافع بخش مقامی تھینک ٹینک ہے جو سیاسی اور عوامی پالیسی کی تحقیق اور قانون سازی کی مضبوطی پر مرکوز ہے۔ اس کے مطابق ایک مقامی ادارے کے طور پر اس کا مشن پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست