روس نیٹو تنازع تیسری عالمی جنگ سے صرف ایک قدم دور: پوتن

روس کے صدر ولادی میر پوتن نے صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد اپنے خطاب میں کہا ہے کہ روس نیٹو تنازع تیسری عالمی جنگ سے صرف ایک قدم دور ہو سکتا ہے۔

روس کے صدر ولادی میر پوتن نے پیر کو مغرب کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس اور امریکہ کی زیر قیادت فوجی اتحاد نیٹو کے درمیان براہ راست تصادم کا مطلب یہ ہوگا کہ کرہ ارض تیسری عالمی جنگ سے ایک قدم دور ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پوتن نے یہ بیان روس میں تازہ ترین صدارتی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد دیا ہے۔

کے جی بی کے سابق لیفٹیننٹ کرنل پوتن، جو پہلی بار 1999 میں اقتدار میں آئے تھے، نے واضح کیا کہ نتائج سے مغرب کو یہ پیغام مل جانا چاہیے کہ اس کے رہنماؤں  کا واسطہ آنے والے کئی برسوں تک پر اعتماد روس کے ساتھ پڑے گا، چاہے وہ جنگ میں ہو یا امن میں۔

روس کے صدارتی انتخابات

حالیہ انتخابات میں فتح کے بعد 71 سالہ پوتن اپنی نئی چھ سالہ مدت کا آغاز کریں گے جس کے نتیجے میں وہ جوزف سٹالن کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے اور اگر وہ اسے مکمل کرتے ہیں تو وہ 200 سال سے زیادہ عرصے میں روس کے سب سے طویل عرصے تک حکمران رہنے والے رہنما بن جائیں گے۔

ان انتخابات میں پبلک اوپینیئن فاؤنڈیشن (ایف او ایم) کے ایگزٹ پول کے مطابق پوتن نے 87.8 فیصد ووٹ حاصل کیے جو روس کی سوویت یونین کے بعد کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں۔

رشین پبلک اوپینیئن ریسرچ سینٹر (وی سی آئی او ایم) نے پوتن کو 87 فیصد ووٹ دیا ہے۔ پہلے سرکاری نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ انتخابات درست تھے۔

امریکہ، جرمنی، برطانیہ اور دیگر ممالک نے کہا ہے کہ ’سیاسی مخالفین کی قید اور سینسرشپ کی وجہ سے ووٹنگ نہ تو آزادانہ تھی اور نہ ہی منصفانہ۔‘

جزوی نتائج کے مطابق کمیونسٹ امیدوار نکولائی خاریتونوف صرف چار فیصد کے ساتھ دوسرے، نئے آنے والے ولادی سلاو داونکوف تیسرے اور انتہائی قوم پرست لیونڈ سلاتسکی چوتھے نمبر پر رہے۔

بظاہر پوتن کا یہ بیان فرانس کے صدر کے اس بیان کا ردعمل ہے جس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ مستقبل میں یوکرین کے اندر زمینی فوجیوں کی تعیناتی سے انکار نہیں کر سکتے۔

 بہت سے مغربی ممالک نے خود کو اس سے دور رکھا ہے جبکہ دیگر، خاص طور پر مشرقی یورپ کے ممالک نے حمایت کا اظہار کیا۔

1962 کے کیوبا میزائل بحران کے بعد یوکرین کی جنگ نے مغرب کے ساتھ ماسکو کے تعلقات میں سب سے گہرا بحران پیدا کیا ہے۔

 پوتن اکثر جوہری جنگ کے خطرات کے بارے میں متنبہ کرتے رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ’کبھی بھی یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی ضرورت محسوس نہیں کی۔‘

فرانسیسی صدر میکروں کے بیان اور روس اور نیٹو کے درمیان تصادم کے خطرات اور امکانات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں پوتن نے کہا کہ ’جدید دنیا میں سب کچھ ممکن ہے۔‘

سوویت یونین کے بعد روس کی تاریخ کا سب سے بڑا تمغہ جیتنے کے بعد پوتن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’یہ سب پر واضح ہے کہ اس سے تیسری عالمی جنگ ایک قدم دور رہ جائے گی۔ میرے خیال میں شاید ہی کسی کو اس میں دلچسپی ہو۔‘

 پوتن نے مزید کہا کہ ’نیٹو کے فوجی اہلکار یوکرین میں پہلے سے موجود ہیں اور روس نے میدان جنگ میں بولی جانے والی انگریزی اور فرانسیسی دونوں زبانیں سنی ہیں۔

’اس میں بھلائی نہیں ہے، سب سے پہلے ان کے لیے، کیونکہ وہ وہاں بڑی تعداد میں مر رہے ہیں۔‘

صدارتی انتخابات کے دوران یوکرینی حملے

دوسری جانب 15 سے 17 مارچ، 2024 کو ہونے والے روسی انتخابات سے قبل، یوکرین نے روس کے خلاف حملے بڑھا دیے ہیں۔ اس دوران سرحدی علاقوں پر گولہ باری جاری رہی۔

جب پوتن سے یہ پوچھا گیا کیا وہ یوکرین کے خارکیو علاقے پر قبضہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں؟

تو پوتن نے جواب دیا کہ ’اگر حملے جاری رہے تو روس روسی علاقے کے دفاع کے لیے یوکرین کے مزید علاقوں سے ایک بفر زون تشکیل دے گا۔‘

پوتن نے کہا کہ ’میں اس بات سے انکار نہیں کرتا، آج ہونے والے المناک واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، جب ہم مناسب سمجھیں گے، کسی وقت ہم کیئف حکومت کے زیرکنٹرول علاقوں میں ایک مخصوص ’سینٹری زون‘ بنانے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا لیکن کہا کہ ’اس طرح کا علاقہ اتنا بڑا ہو سکتا ہے کہ غیر ملکی ساختہ اسلحے کو روسی علاقے تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔‘

پوتن نے فروری 2022 میں یوکرین پر مکمل حملے کا حکم دیا تھا جس کی وجہ سے آٹھ سال بعد یورپ میں پھر جنگ چھڑ گئی تھی۔

روسی صدر پوتن نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ میکروں یوکرین میں جنگ کو بھڑکانے کی کوشش روک دیں اور امن قائم کرنے میں کردار ادا کریں: ’ایسا لگتا ہے کہ فرانس کردار ادا کر سکتا ہے۔ ابھی بھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے۔‘

 انہوں نے کہا کہ ’میں یہ بار بار کہہ رہا ہوں اور میں دوبارہ یہ کہوں گا۔ ہم امن مذاکرات کے حق میں ہیں لیکن صرف اس لیے نہیں کہ دشمن کے پاس گولیاں ختم ہو رہی ہیں۔

’اگر وہ واقعی سنجیدگی سے دونوں ریاستوں کے درمیان طویل مدتی پرامن اور اچھے ہمسایہ تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں اور صرف ڈیڑھ سے دو سال کے لیے دوبارہ اسلحہ سازی کے لیے وقفہ نہیں لینا چاہتے۔‘

’امریکی جمہوریت‘

پوتن نے انتخابات پر امریکی اور مغربی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انتخابات جمہوری نہیں ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ریاستی طاقت کے استعمال پر تنقید کی۔

 پوتن نے امریکہ کے بارے میں کہا کہ ’وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر پوری دنیا ہنس رہی ہے۔ ’یہ صرف ایک تباہی ہے- یہ جمہوریت نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

16 فروری کو آرکٹک کی ایک روسی جیل میں نامعلوم حالات میں انتقال کرنے والے حزب اختلاف کے رہنما الیکسی نوالنی کے بارے میں پوچھے جانے پر پوتن نے کہا کہ ’بس ان کا انتقال ہو گیا۔‘

پوتن نے کہا کہ وہ نوالنی کی موت سے کچھ دن پہلے ان کے تبادلے پر راضی ہو گئے تھے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے فروری میں خبر دی تھی کہ نوالنی کی موت سے کچھ دن قبل ان کے تبادلے کا معاہدہ طے پا گیا تھا۔

پوٹن نے قیدیوں کے تبادلے کی منظوری کے بارے میں کہا کہ، ’میں نے کہا تھا میں متفق ہوں۔

’میری ایک شرط تھی کہ ہم اس کا تبادلہ کریں لیکن وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔‘

 نوالنی کی بیوہ یولیا نے پوتن پر اپنے شوہر کے قتل کا الزام عائد کیا ہے جبکہ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا