آئی پی ایل کی چمکتی دنیا جس نے کرکٹ بدل دی

انڈین پریمیئر لیگ دنیا کی سب سے بڑی کرکٹ لیگ ہے جس نے کھلاڑیوں کو مالامال کر دیا ہے، مگر اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔

30 مئی2023 کو انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے فائنل کرکٹ میچ میں گجرات ٹائٹنز کے خلاف جیت کے بعد چینئی سپر کنگز کے کھلاڑی ٹرافی کے ساتھ جشن منا رہے ہیں (اے ایف پی)

صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ انڈیا کا کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) چونکہ دنیا کا امیر ترین کرکٹ بورڈ ہے لہٰذا اسی وجہ سے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں بھی پیسے کی ریل پیل ہے، جو دنیا بھر کے کرکٹرز کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔

یہ تحریر مصنف کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

اگر ہم آئی پی ایل کی شہرت اور مقبولیت کا تفصیلی جائزہ لیں تو کئی اہم پہلو بھی سامنے آتے ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس لیگ نے کرکٹ کی دنیا کی شکل ہی بدل ڈالی ہے۔

آج جب ہم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو دیکھتے ہیں تو اس کی مقبولیت میں آئی پی ایل کا کردار نمایاں ہے۔ اسے دیکھنے والے دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔

بی سی سی آئی کی طاقتور حیثیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کو اپنے فیوچر ٹور پروگرام میں آئی پی ایل کے لیے جگہ رکھنی پڑتی ہے اور اس کی تاریخیں ورلڈ کپ چیمپیئنز ٹرافی اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ساتھ ساتھ نظر آئی ہیں، حالانکہ کہنے کو یہ ایک ڈومیسٹک فرنچائز ٹی ٹوئنٹی لیگ ہے۔

جب یہ لیگ ہو رہی ہوتی ہے اس وقت انٹرنیشنل کرکٹ برائے نام ہوتی ہے کیونکہ بڑے ناموں والے کرکٹر اس لیگ میں کھیل کر اپنے بینک اکاؤنٹ کو مستحکم کر رہے ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ آئی پی ایل کی کشش ہی ہے کہ کھلاڑیوں کو بھی اپنی اہمیت کا اندازہ ہو چکا ہے۔ ہم اکثر یہی دیکھتے ہیں کہ کرکٹر صرف اس لیگ کی خاطر اپنے ملک کی نمائندگی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور اس ملک کو اپنی انٹرنیشنل سیریز کے لیے بی ٹائپ کے کرکٹرز پر مشتمل ٹیم منتخب کرنی پڑتی ہے۔

بی سی سی آئی، آئی پی ایل میں حصہ لینے والے غیرملکی کرکٹروں کے کرکٹ بورڈز کو ہر کھلاڑی کی تنخواہ کا 10 فیصد ادا کرتا ہے جس پر یہ بورڈز بھی خوش ہیں۔ بی سی سی آئی نے یہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے کہ کوئی بھی انڈین کھلاڑی آئی پی ایل کے علاوہ دنیا کی کسی دوسری لیگ میں حصہ نہیں لے سکتا۔

دراصل ان کھلاڑیوں کو آئی پی ایل میں ہی اتنا کچھ مل جاتا ہے کہ وہ کسی دوسری لیگ کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں۔

آئی پی ایل کی وجہ سے نہ صرف انٹرنیشنل کرکٹرز بلکہ انڈیا کے مقامی کھلاڑیوں کی مالی پوزیشن بھی بہتر ہوئی ہے۔ 2014 سے پہلے انڈین ڈومیسٹک کرکٹر نیلامی میں شریک نہیں ہو سکتے تھے اور انہیں 10 سے 30 لاکھ روپے میں لیا جاتا تھا، لیکن بعد میں انہیں بھی نیلامی میں شریک کیا جانے لگا۔

نئے ٹیلنٹ کو نکھارنے کا پلیٹ فارم

آئی پی ایل وہ زبردست پلیٹ فارم ہے جس سے ہر سال نیا ٹیلنٹ سامنا آتا ہے۔

یہ لیگ نئے کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کر رہی ہے کہ وہ اپنی بہترین پرفارمنس دکھا کر راتوں رات سٹار بن جاتے ہیں۔

کئی انڈین اور غیرملکی کرکٹر ایسے ہیں جن پر آئی پی ایل کی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھلے ہیں۔

روی چندرن اشون کو مہندر سنگھ دھونی کی کپتانی میں چینئی سپر کنگز کی طرف سے موقع ملا، اسی طرح جسپریت بمراہ ممبئی انڈینز کی طرف سے 19 سال کی عمر میں آئے تھے جس کے بعد ان پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھل گئے۔

ان کے علاوہ ہاردک پانڈیا، شریاس ائر، سریا کمار یادو اور امباتی رائیڈو کی قسمت بھی آئی پی ایل کھیلنے کے بعد چمکی۔

آئی پی ایل پرفارمنس مانگتی ہے

آئی پی ایل میں کھیل کا معیار بہت سخت ہے اس لیے کھلاڑیوں کو بھی پتہ ہے کہ جو فرنچائز انہیں کروڑوں میں لے رہی ہے وہ ان سے پرفارمنس بھی مانگتی ہے، اسی لیے کھلاڑیوں کا فٹنس لیول بھی بہتر ہوا ہے اور فیلڈنگ کا معیار بھی بلند نظر آتا ہے۔

آئی پی ایل کی وجہ سے کھلاڑیوں کا پول بڑھا ہے۔ بینچ سٹرینتھ میں اضافہ ہوا ہے۔ مینٹل ٹفنس بڑھی ہے۔ ورلڈ کلاس کرکٹروں کے ساتھ کھیل کر نوجوان کھلاڑیوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے اور وہ انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جاتے ہیں۔

اگر ہم آئی پی ایل میں حصہ لینے والے غیرملکی کرکٹرز کو دیکھیں تو 2008 سے آج تک تمام ہی بڑے کرکٹر اس کا حصہ رہے ہیں۔ دنیا برینڈن مک کلم، کرس گیل اور اے بی ڈی ویلیئرز جیسے جارحانہ انداز کے بیٹسمینوں کی آئی پی ایل میں کھیلی گئی یادگار اننگز آج بھی نہیں بھولی ہے۔

آئی پی ایل میں جہاں دنیا کے بہترین کرکٹر نظر آتے ہیں وہیں کوچنگ سٹاف میں بھی کئی بڑے نام دکھائی دیتے ہیں جن کے تجربے سے نوجوان کرکٹروں کو سیکھنے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے بھرپور مواقع ملے ہیں۔

وسیم اکرم، برائن لارا، رکی پونٹنگ، سٹیون فلیمنگ، ٹام موڈی، مہیلا جے وردھنے، جان رائٹ، ڈینیئل ویٹوری اور ژاک کیلس جیسے کوچ اگر ڈگ آؤٹ میں موجود ہوں تو نوجوان کرکٹروں کی اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔

آئی پی ایل سپانسرشپ، سیاحت، ایڈورٹائزنگ اور ملازمتوں کے مواقع کی وجہ سے انڈیا کی معیشت میں بھی اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ اس لیگ کی وجہ سے انڈین کرکٹ کے انفرا سٹرکچر میں زبردست تبدیلی آئی ہے۔ ہر شہر میں بین الاقوامی معیار کا کرکٹ سٹیڈیم بہترین سہولتوں سے آراستہ ہے، جہاں اس فرنچائز کے حمایتی پورے جوش و خروش کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

ڈالروں کی ریل پیل

آئی پی ایل کی مالی حیثیت اور اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ غیر معمولی طور پر بڑھتی رہی ہے۔ 2008 میں جب پہلی مرتبہ کھلاڑیوں کی نیلامی ہوئی تھی تو 78 کھلاڑی صرف 42 ملین ڈالرز میں فروخت ہوئے تھے۔ اس وقت مہندرسنگھ دھونی کو 15 لاکھ ڈالر میں چینئی سپر کنگز نے خریدا تھا۔

آج حالات ماضی سے مختلف نظر آتے ہیں۔ آسٹریلوی فاسٹ بولر مچل سٹارک اس وقت آئی پی ایل کے مہنگے ترین کرکٹر ہیں جنہیں کولکتہ نائٹ رائیڈرز 30 لاکھ ڈالر میں خریدا ہے۔ اسی طرح آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز کو حاصل کرنے کے لیے سن رائزرز حیدرآباد نے 24 لاکھ ڈالر ادا کیے ہیں۔

آئی پی ایل کے پانچ سالہ ٹی وی اور سٹریمنگ حقوق کی مالیت چھ ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔

آئی پی ایل کے فرنچائزز مالکان میں ممبئی انڈینز کے مالک مکیش امبانی دنیا کے امیر ترین سپورٹس مالک ہیں۔ انہی کی کمپنی نے آئی پی ایل کے پانچ سالہ سٹریمنگ رائٹس بھی تین ارب ڈالر میں خرید رکھے ہیں۔

ممبئی انڈینز آئی پی ایل کی سب سے امیر فرنچائز ہے جس کی اپنی برانڈ ویلیو گذشتہ سال 1.2 ارب ڈالرز تھی جبکہ کولکتہ نائٹ رائیڈرز اور چنئی سپر کنگز کی برانڈ ویلیو گذشتہ سال 1.1 ارب ڈالرز تھی۔

آئی پی ایل کا ایک اور کاروباری پہلو یہ بھی کہ متعدد فرنچائز مالکان نے اپنے کاروبار کو وسعت دیتے ہوئے اپنی ٹیمیں دیگر لیگز میں بھی بنائی ہیں جن میں جنوبی افریقہ لیگ، آئی ایل ٹی ٹوئنٹی اور امریکہ کی میجر لیگ شامل ہیں جن میں آئی پی ایل کی ٹیموں سے ملتے جلتے ناموں کی ٹیمیں آپ کو نظر آئیں گی۔

آئی پی ایل کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں کہ ایک طویل ٹورنامنٹ کے بعد جب کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ میں آتے ہیں تو اکثر تھکاوٹ اور انجری کا شکار ہوتے ہیں۔

آئی پی ایل کی شفافیت پر بھی کافی بات ہوتی رہی ہے۔ یہ لیگ بھی سپاٹ فکسنگ کے ناسور سے نہیں بچ سکی ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بڑے سکینڈل نے اس لیگ کو بھی داغدار کر دیا تھا جس کی وجہ سے راجستھان رائلز اور چنئی سپر کنگز کو دو سال کے لیے لیگ سے معطل کر دیا گیا تھا۔

پاکستانی کھلاڑیوں پر دروازے بند

اس لیگ کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے پاکستانی کرکٹروں پر اس کے دروازے بند ہیں۔ پاکستان کے 12 کھلاڑی صرف ایک بار آئی پی ایل کھیل پائے تھے جس کے بعد انہیں اس لیگ میں کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا۔

انڈین شائقین کو آج تک کولکتہ نائٹ رائیڈرز کی طرف سے شعیب اختر کا غیر معمولی بولنگ سپیل یاد ہے، اور وہ سہیل تنویر کی چھ وکٹوں کی کارکردگی کو بھی نہیں بھولے ہیں جو ایک عرصے تک آئی پی ایل کی بہترین بولنگ کا ریکارڈ تھی۔

آج بھی انڈین شائقین بابر اعظم، شاہین آفریدی، فخر زمان اور محمد رضوان کو اپنے سامنے کھیلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

گذشتہ ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی کرکٹرز انڈین شائقین میں سب سے زیادہ مقبول تھے اور اگر یہ کرکٹر آئی پی ایل میں کھیلتے ہیں تو سوچیے انڈیا کے کرکٹ میدان کیا منظر پیش کریں گے؟

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ