بائیڈن کی جگہ ٹرمپ کا انتخاب کیوں کیا جاسکتا ہے؟

ایک مسلمان، یمنی نژاد امریکی خاتون کے طور پر میری یا میری برادری کی اس سے بڑی توہین کوئی اور نہیں کہ ہمارے معاملے میں یہ قیاس کیا جائے کہ ہم ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کے مضمرات کو نہیں سمجھتے۔

17 فروری 2024 کو بنائے گئے اس کولاج میں یکم جون 2023 کو امریکی صدر جو بائیڈن کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان سے ہاتھ لہراتے ہوئے اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 12 جنوری 2021 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے باہر ہاتھ لہراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)

جب سات اکتوبر کے ہولناک واقعات سامنے آئے تو ہر کسی کو علم تھا کہ اسرائیل حماس کے خلاف جوابی کارروائی کرے گا۔ میں اس انتقامی کارروائی کے لیے تیار تھی، جس سے میرے بچوں کے قریبی رشتہ داروں کا خاندان متاثر ہو گا جو فلسطینی مسیحی ہیں۔

میں نے دعا کی کہ غزہ میں میرے مسلمان بہن بھائیوں کو چند لوگوں کے اعمال کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے، لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ حالات کتنے خراب ہو جائیں گے۔

اب اسرائیلی فوج، جو دنیا کی چوتھی طاقتور فوج ہے اور ایک خفیہ ادارہ جو دنیا میں سب سے بہترین ہے، کی وجہ سے ہم غزہ کی ہولناک حالت دیکھ رہے ہیں جو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہم سن رہے ہیں کہ طبی عملہ جانوروں کا چارہ کھانے پر مجبور ہے اور بچوں کو قحط کا خطرہ ہے۔

اگرچہ یہ صورت حال غیر متوقع نہیں تھی، پھر بھی یہ ایک مکمل صدمے کے طور پر سامنے آئی کہ اسرائیل اجتماعی سزا کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ یہ اس قدر سنگین بات تھی کہ بین الاقوامی عدالت انصاف بھی اس دعوے پر غور کرنے پر تیار ہو گئی کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینی شہریوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔

میرے لیے یہ ایک مزید ڈراؤنا خواب اور ہولناک بات ہے کہ میری حکومت اور صدر میرے ٹیکسوں کا استعمال ان بموں اور فوجی امداد کی فراہمی میں مدد کے لیے کر رہے ہیں جو لوگوں کا موقعے پر صفایا کرنے میں استعمال ہو رہے ہیں۔

جب تک ’بائیڈن کو چھوڑ دو‘ مہم، جس میں الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ فائر بندی کا اعلان کریں یا نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ووٹوں سے محروم ہونے کا خطرہ مول لیں، کا آغاز ہوا، تب تک ہزاروں مرد، خواتین اور بچے مردہ، زندہ دفن یا ملبے تلے گم ہو چکے تھے۔

یہ بات اب بھی ناقابل فہم اور ناقابل معافی ہے کہ امریکی انتظامیہ کو کسی بھی ایسے ملک کو امداد فراہم کرنی ہے جو ان نقصانات کا ذمہ دار ہے۔ میرے نزدیک یہ ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے مترادف ہے، لیکن مذمت کہاں گئی اور اس کے نتائج کہاں ہیں؟

میں نے بہت سے ڈیموکریٹس کو ہمیں یاد دلاتے ہوئے سنا ہے کہ اگر جو بائیڈن نومبر میں صدارتی انتخاب ہار گئے تو آگے کیا خطرہ ہو گا لیکن ایک مسلمان، یمنی نژاد امریکی خاتون کے طور پر میری یا میری برادری کی اس سے بڑی توہین کوئی اور نہیں کہ ہمارے معاملے میں یہ قیاس کیا جائے کہ ہم ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کے مضمرات کو نہیں سمجھتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں چار سال تک مسلمانوں پر سفری پابندی کا سامنا کر چکی ہوں، اس دھمکی کے ساتھ کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آ گئے تو انہیں بحال کر دیا جائے گا۔ میری بات پر یقین کریں میں اس صورت حال کو سمجھتی ہوں۔

میں ایک ڈیموکریٹ ہوں جس نے 2020 کے صدارتی الیکشن میں برنی سینڈرز کے نام خط لکھا، جس کی بنیاد یہ تھی کہ میں رہائش، تعلیم، مزدوری، صحت کی دیکھ بھال اور خواتین کے حقوق جیسے مسائل کے بارے میں کتنی جذباتی ہوں، لیکن میرا پختہ یقین ہے کہ یہ دو برائیوں میں سے کم تر برائی کا معاملہ ہے۔

حالیہ واقعات کی بنیاد پر اگرچہ ٹرمپ نے اپنی مدت صدارت کے دوران ہمارے ووٹوں سے محروم ہونے کے لیے لاکھوں کام کیے ہوں گے، لیکن 30 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کے قتل سے بڑھ کر دنیا میں کوئی برائی نہیں ہے اور یہ بائیڈن کے دور میں ہوا۔

ایک چیز جو ہم ڈیموکریٹس کو مزید کہتے ہوئے نہیں سنتے کہ ’اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیں۔‘ اگر ہم ایسا کرتے تو جو بائیڈن نومبر میں نہیں جیت سکتے۔

ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ فلسطین اور مسلمانوں کے مسائل کے معاملے میں بہتر نہ ہوں لیکن وہ اس سے بدتر نہیں ہو سکتے۔ ہمارا مقصد ایسا صدر منتخب کرنا نہیں جو نمایاں طور پر فلسطینیوں کے حق میں ہو کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ متبادل بھی بہتر نہیں۔

لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ امریکی عوام کی حیثیت سے ہم کسی ایسے شخص کو سزا دیں، جس نے ہمیں دھوکہ دیا اور فلسطینی عوام کو دھوکہ دیا۔ ایسے شخص جن کے بارے میں میرا ماننا ہے کہ انہوں نے نسل کشی کے لیے سرگرمی کے ساتھ سرمایہ فراہم کیا۔

بائیڈن دوسری بار ملک کے اعلیٰ ترین عہدے کے مستحق نہیں ہیں۔ ہمیں سیاست دانوں کو ان کے فیصلوں کے نتائج پر جوابدہ بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے اصولوں کی خاطر سیاست دانوں اور جماعتوں کو چھوڑنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

ریاست مشی گن کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ یہ پہلے ہی ہو رہا ہے۔ فروری میں مشی گن کے ابتدائی انتخاب میں ’غیر وابستہ‘ ووٹوں کو ملا کر بائیڈن کے مقابلے میں ٹرمپ کو زیادہ ووٹ ملے۔

بائیڈن جتنی دیر تک غزہ میں مستقل فائر بندی کا مطالبہ کرنے میں ناکام رہیں گے، اس بات کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوگا کہ ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد پر اثر پڑے۔ میرے جیسے ووٹر اب پارٹی کی لکیروں کو عبور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم فائر بندی کے حامی امیدواروں کو ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔ ’بلیو، نو میٹر ہُو۔‘ (چاہے کوئی بھی ڈیموکریٹک امیدوار ہو۔)

ہمارے لیے اس الیکشن کی اہمیت یہ نہیں ہے کہ بائیڈن نومبر میں ہمارے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ وہ پہلے ہی ایسا کیا کرچکے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ ہمارے ووٹوں سے محروم ہو جائیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر