پاکستان سے سکیورٹی تعاون کو وسعت دینا ترجیح ہے اور رہے گی: امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ پاکستان سے سکیورٹی شراکت کو وسعت دینے کے لیے کام جاری رکھے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ پاکستان سے سکیورٹی شراکت کو وسعت دینے کے لیے کام جاری رکھے گا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے جمعرات  ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ’پاکستان سے سکیورٹی تعاون کو وسعت دینا ترجیح رہی ہے اور رہے گی۔‘

 رواں ماہ امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر ان کی حکومت کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دنیا اور خطے کو درپیش وقت کے اہم ترین چیلنجز کا سامنا کرنے میں امریکہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔‘

جس کے جواب میں پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے صدر بائیڈن کے نام اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’پاکستان عالمی امن و سلامتی اور خطے کی ترقی و خوشحالی کے مشترکہ ہدف کے لیے امریکہ کے ساتھ کے کام کرنے کا خواہاں ہے۔‘

امریکہ محکمہ خارجہ کی معمول کی پریس بریفنگ میں جب ترجمان میتھیو ملر سے سوال کیا گیا کہ صدر بائیڈن کے خط  کے جواب میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’پاکستان عالمی امن اور علاقائی خوشحالی کے لیے امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔

’پڑوسی ممالک سے سکیورٹی کے خطرات سے نمٹنے اور پاکستانی طالبان کا مقابلہ کرنے میں امریکہ پاکستان کو کیا مدد فراہم کر سکتا ہے؟‘

اس جواب میں میں میتھیو ملر نے کہا کہ ’ہم امریکہ اور پاکستان کے درمیان سکیورٹی شراکت کو وسعت دینے کے لیے کام جاری رکھیں گے۔ ہم نے اس پوڈیم (اس مقام) سے متعدد بار یہ بات کہی ہے کہ یہ ہمارے لیے ایک ترجیح رہی ہے اور رہے گی۔‘

شہباز شریف نے جو بائیڈن کے نام جوابی خط میں لکھا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو کلیدی اہمیت دیتا ہے۔ ’دونوں ممالک توانائی، موسمیاتی تبدیلی، زراعت، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اہم اقدامات پر مل کر کام کر رہے ہیں۔‘

وزیراعظم شہباز شریف نے دونوں ممالک کے مابین توانائی کے شعبے اور گرین الائنس کے اقدام میں تعاون کو خوش آئند قرار دیا۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ اسے سرحد پار افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے حملوں کا سامنا ہے اور وہ طالبان حکومت سے یہ مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ ہفتے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر ہی نے کہا تھا کہ ان کا ملک پرعزم ہے کہ افغانستان دوبارہ کبھی دہشت گردی کا مرکز نہ بن پائے اور طالبان پر دباؤ ڈالتا رہے گا کہ وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف اپنے تمام وعدے پورے کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ’ہم نے طالبان پر واضح کر دیا ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ دہشت گردوں کو کوئی محفوظ پناہ گاہ نہ دیں چاہے وہ القاعدہ ہو یا داعش خراسان یا کوئی اور دہشت گرد تنظیم۔‘

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان کی جانب سے کئی بار یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے عناصر کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔

پاکستان نے 16 مارچ 2024 کو قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے حملے میں سات فوج اہلکاروں کی موت کے بعد افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے تھے۔

جس کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے واضح کیا تھا کہ کہ پاکستان نے 18 مارچ کو افغانستان میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں پر جو فضائی کارروائی کی وہ افغان عوام یا فوج حملہ نہیں تھا بلکہ ٹی ٹی پی کے ایک گروپ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا