سکاٹ لینڈ میں حمزہ یوسف کی حکومت خطرے میں

سکاٹ لینڈ حکومت کے سربراہ حمزہ یوسف کو اگلے ہفتے فرسٹ منسٹر کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے جن کے سابق اتحادیوں کا کہنا ہے کہ وہ ان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دیں گے۔

20 اپریل، 2024 کی اس تصویر میں سکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف ایک مظاہرے میں شریک ہیں(اے ایف پی)

سکاٹ لینڈ حکومت کے پاکستانی نژاد سربراہ حمزہ یوسف کو اگلے ہفتے فرسٹ منسٹر کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے جن کے سابق اتحادیوں کا کہنا ہے کہ وہ ان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دیں گے۔

یہ پیش رفت حکومتی اتحاد کے خاتمے کے چند گھنٹے بعد سامنے آئی جب سکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) نے حکمران جماعت سکاٹش گرینز (ایس جی) کے ساتھ اپنا معاہدہ ختم کر دیا۔

دونوں جماعتوں کے درمیان کشیدگی اس وقت ناقابل واپسی صورت حال تک پہنچی جب وزرا نے موسمیاتی تبدیلی کا ایک اہم ہدف پورا نہ ہونے اور بلوغت کی دوا کے استعمال کو روک دیا۔

حمزہ یوسف کی قسمت کا فیصلہ اب سابق ایس این پی کے رکن پارلیمان ایش ریگن پر ہے جسے انہوں نے گذشتہ سال قیادت کے مقابلے میں شکست دی تھی۔

ایش ریگن نے بعد میں الیکس سالمنڈ کی سینٹرل رائٹ نیشنلسٹ پارٹی البا میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ حمزہ یوسف نے تب کہا تھا کہ ان کی رخصتی ’کوئی بڑا نقصان نہیں‘ ہے۔

اس ووٹنگ کے نتائج پر عمل ہونا لازم نہیں ہے، یعنی اس فیصلے کا انحصار فرسٹ منسٹر پر ہوگا کہ وہ سکاٹش پارلیمنٹ کا اعتماد کھونے پر کیا جواب دیتے ہیں۔

 تاہم ان سے توقع کی جائے گی کہ وہ اس سے شدید دباؤ کا سامنا کریں گے جو ان کی پوزیشن کو ناقابل برداشت بنا سکتا ہے۔

سکاٹش کنزرویٹو نے عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے تحریک پیش کی ہے، حمزہ پر تنقید کرتے ہوئے پارٹی نے کہا کہ یہ ’افراتفری میں ہونے والا اتحاد‘ تھا جو اب ’افراتفری میں ہی ختم‘ ہو چکا ہے۔

حمزہ یوسف نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ ایک اقلیتی حکومت کے طور پر حکومت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے بارے میں انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ ’مشکل‘ ہو گا لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایس این پی نے اپنے اقتدار کے دوران زیادہ تر وقت کے لیے ایسا ہی کیا ہے۔

حمزہ نے سکاٹ لینڈ کے ایوان کے تمام ارکان کے ساتھ کام جاری رکھنے کا عہد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کئی سالوں سے وزیر کی حیثیت سے سیاسی تقسیم کے باوجود ’کام کرنے کی آمادگی‘ ظاہر کی ہے۔

ان سے دو روز قبل اس بیان کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا وہ ’بیوٹ ہاؤس‘ معاہدے کو اہمیت دیتے ہیں اور اس کے جاری رہنے کی امید کرتے ہیں۔

اس معاہدے، جس پر 2021 میں دستخط کیے گئے تھے اور اس کا نام ایڈنبرا میں فرسٹ منسٹر کی سرکاری رہائش گاہ کے نام پر رکھا گیا ہے، کے تحت سکاٹش گرینز کو پہلی بار برطانیہ میں  کہیں بھی حکومت کرنے کا اختیار ملا تھا۔

حمزہ یوسف نے کہا: ’میں نے جو کہا ہے میں اس پر قائم ہوں۔ میں بیوٹ ہاؤس معاہدے اور اس سے جو کچھ حاصل ہوا ہے اس کی اگر مگر کے بغیر قدر کرتا ہوں۔

’یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں قیادت کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔‘ انہوں نے کہا کہ بیوٹ ہاؤس معاہدہ ’فطری نتیجے‘ پر پہنچا ہے۔

اس معاہدے نے ہولیروڈ (سکاٹ لینڈ) میں ایس این پی کو اس وقت اکثریت دی جب اس کے ارکان پارلیمان کے ووٹ سات گرینز ممبران کے ووٹوں کے ساتھ مل گئے اور اس نے گرینز کے شریک رہنما پیٹرک ہاروی اور لورنا سلیٹر کو سکاٹش حکومت میں جونیئر منسٹر نامزد کیا۔

معاہدے کے بغیر ایس این پی کو سکاٹ لینڈ میں اقلیتی انتظامیہ کے طور پر کام کرنا پڑے گا جہاں اس کے پاس پارلیمنٹ کی 129 میں سے 63 نشستیں ہیں۔ دوسری جانب سکاٹش ٹوریز کے پاس 31، لیبر کے پاس 22، سکاٹش گرینز کے پاس سات اور لبرل ڈیموکریٹس کے پاس چار نشستیں ہیں۔

معاہدے کا یہ خاتمہ اس وقت سامنے آیا جب ایس این پی کو پہلے ہی کئی مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ سابق چیف ایگزیکٹیو پیٹر موریل، جو سابق فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن کے شوہر ہیں، پر ایس این پی فنڈز میں غبن کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

سکاٹ لینڈ پولیس نے رواں ماہ اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پیٹر موریل، جنہوں نے 22 سال تک پارٹی کے چیف ایگزیکٹیو کے طور پر خدمات انجام دیں، کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان پر غبن کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

نکولا سٹرجن کو بھی گذشتہ سال اپریل میں ان کے شوہر کی پہلی گرفتاری کے دو ماہ بعد گرفتار کیا گیا تھا جب کہ پارٹی کے سابق خزانچی کولن بیٹی کو بھی گذشتہ سال گرفتار کیا گیا تھا۔

دونوں کو بغیر کسی الزام کے رہا کر دیا گیا لیکن اس معاملے میں مزید تفتیش باقی ہے۔

اتحاد کے خاتمے سے پہلے ایس این پی کی اعلیٰ شخصیات، جن میں سابق قیادت کی امیدوار کیٹ فوربس اور پارٹی کے کلیدی رہنما فرگس ایوِنگ شامل ہیں، نے پہلے ہی اس معاہدے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکاٹش گرینز نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ بیوٹ ہاؤس معاہدے کے مستقبل پر ووٹنگ کرے گی۔ مس سلیٹر نے بیوٹ ہاؤس ڈیل سے نکلتے ہوئے ایس این پی پر ’مستقبل کی نسلوں کو بیچنے‘ کا الزام لگایا۔

معاہدے کے خاتمے کی تصدیق کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ‘یہ ایس این پی کی سیاسی بزدلی کا مظاہرہ ہے، جو ملک کی سب سے زیادہ رجعت پسند قوتوں کو خوش کرنے کے لیے آنے والی نسلوں کو بیچ رہے ہیں۔

’انہوں نے دونوں جماعتوں کے ارکان کے ساتھ اعتماد کے بندھن کو توڑ دیا ہے جنہوں نے افراتفری میں ثقافتی جنگوں اور تقسیم پر دو بار تعاون کے معاہدے اور موسمیاتی کارروائی کو ترک کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ووٹرز کو دھوکہ دیا ہے۔‘

انہوں نے ماحولیات، ٹرانس رائٹس اور آزادی کی حمایت کرنے والے ایس این پی کے ارکان سے مطالبہ کیا کہ وہ سکاٹش گرینز میں شامل ہو جائیں۔

سکاٹش ٹوری کے چیئرمین کریگ ہوئے نے کہا کہ بیوٹ ہاؤس معاہدے کو ختم کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حمزہ یوسف کتنے ’نااہل‘ ہیں۔

کریگ ہوئے نے کہا: ’اس زہریلے اتحاد کا خاتمہ حمزہ یوسف کے لیے سراسر بے عزتی ہے جنہوں نے اسے ’سونے جتنا قیمتی‘ قرار دیا اور آخر تک اس کی حمایت جاری رکھی۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ