مسلم طالبہ لندن سکول میں نماز پر پابندی کے خلاف مقدمہ ہار گئیں   

طالبہ نے برینٹ میں لندن کے ایک سکول کے خلاف مقدمہ دائر کر کے دعویٰ کیا تھا کہ نماز پر پابندی کی پالیسی سے ان کے مذہبی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔

لندن میں میکیلا کمیونٹی سکول کی ہیڈ ٹیچر کیتھرین بیربل سنگھ کو برطانیہ میں ’سخت ترین‘ ٹیچر کا لقب دیا گیا ہے (ریور ڈاگ پروڈکشنز)

شمالی لندن کے ایک کامیاب سکول، جسے کبھی برطانیہ کا سخت ترین اصولوں والا ادارہ  کہا جاتا تھا، کی ایک طالبہ نماز کی ادائیگی پر پابندی کے خلاف ہائی کورٹ میں مقدمہ ہار گئیں۔  

طالبہ، جن کا نام ظاہر نہیں کیا جا سکتا، نے لندن کے علاقے برینٹ میں میکیلا کمیونٹی سکول کے خلاف قانونی کارروائی کی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ پالیسی امتیازی ہے اور اپنی رسمی نوعیت کی وجہ سے ان کے عقیدے کو ’منفرد‘ طور پر متاثر کرتی ہے۔ 

لیکن منگل کو ایک تحریری فیصلے میں جسٹس لنڈن نے طالبہ کے دلائل کو مسترد کر دیا جس کو ہیڈ ٹیچر کیتھرین بیربل سنگھ نے ’تمام سکولوں کی فتح‘ قرار دیا۔ کیتھرین بیربل سنگھ  سوشل موبیلیٹی کی سابق سرکاری عہدیدار تھیں اور انہوں نے  سابق وزیر داخلہ سویلا بریورمین کے ساتھ مل کر سکول کی بنیاد رکھی تھی۔    

سکول نے عدالت میں استدلال کیا تھا کہ اس کی پالیسی جائز تھی جب انہیں موت اور بم کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا جو اس جگہ پر مذہبی عبادت سے منسلک تھیں۔ 

بیربل سنگھ نے کہا: ’سکول کو اپنے طلبہ کے لیے صحیح کام کرنے لیے لیے آزاد ہونا چاہیے۔‘ 

ان کے بقول: ’اس لیے عدالت کا یہ فیصلہ تمام سکولوں کی فتح ہے۔ سکولوں کو ایک بچے اور اس کی ماں کے لیے صرف اس لیے مجبور نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنا نقطہ نظر تبدیل کریں کیونکہ کہ انہیں سکول میں کوئی چیز پسند نہیں ہے۔‘

 سکول کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والی طالبہ نے قانونی فرم سمپسن ملر کی طرف سے فراہم کردہ ایک بیان میں کہا کہ وہ اس فیصلے سے مایوس ہیں لیکن وہ محسوس کرتی ہیں کہ انہوں نے پہلی بار اس پابندی کو چیلنج کرتے ہوئے صحیح کام کیا۔ 

انہوں نے کہا: ’واضح طور پر میں بہت مایوس ہوں کہ جج نے مجھ سے اتفاق نہیں کیا، جیسا کہ فیصلے میں بیان کیا گیا ہے، میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتی کہ سکول کے لیے ان طلبہ کو ایڈجسٹ کرنا بہت مشکل ہو گا جو لنچ بریک میں عبادت کرنا چاہتے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’سکول بہت اچھی طرح سے چل رہا ہے اور عام طور پر ہر چیز کا انتظام کرنے میں بہت کامیاب ہے۔ سکول طلبہ کو عبادت کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہتا، اس نے ایک مختلف راستہ چنا ہے اور جج نے ان کی حمایت کی۔`

ان کے بقول: ’اگرچہ میں یہ مقدمہ ہار گئی، میں اب بھی محسوس کرتی ہوں کہ میں نے پابندی کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتے ہوئے صحیح کام کیا۔ میں نے اپنی پوری کوشش کی اور اپنے اور اپنے مذہب سے مخلص رہی۔ اس کیس میں شامل ہونا میرے لیے آسان نہیں تھا۔ یہاں کے اساتذہ بہت اچھے ہیں اور مجھے امید ہے کہ میں اپنی پوری کوشش کروں گی۔ میں اس سمجھ بوجھ کے لیے بھی شکر گزار ہوں کہ سکول میں میرے غیر مسلم دوستوں نے ہم پر اثر انداز ہونے والے مسائل کا مشاہدہ کیا۔‘ 

 طالبہ کی والدہ نے کہا کہ وہ ’مقدمہ کے فیصلے سے سخت مایوس’ ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘معاملے کی جڑ یہ تھی کہ نماز ہمارے لیے صرف ایک اختیاری عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک لازمی عنصر ہے جو ہماری زندگیوں کو بطور مسلمان تشکیل دیتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے عقیدے میں نماز کی ناقابل تردید اہمیت رکھتی ہے، جو ہر مشکل میں طاقت اور ایمان کے ساتھ ہماری رہنمائی کرتی ہے۔‘ 

 ایک اور بیان میں ہیڈ ٹیچر بیربل سنگھ نے دعویٰ کیا کہ پچھلے سال مسلمان طلبہ پر ’نماز پڑھنے، سکول سے باہر نکلنے اور حجاب پہننے‘ کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا جبکہ اساتذہ کو بدسلوکی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک غلط بیانیہ پیش کیا گیا تھا کہ سکول میں مسلمان مظلوم اقلیت ہیں۔ 

 انہوں  نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’2014 ہماری کل تعداد کا 30 فیصد حصہ مسلمان طلبہ تھے اور اب یہ 50 فیصد ہے۔ یہاں طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگر خاندانوں کو سکول پسند نہیں تو وہ بار بار اپنے بچوں کو مائیکلا بھیجنے کا انتخاب نہیں کریں گے۔‘  

سکول میں پچھلے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بیربل سنگھ نے کہا: ’گذشتہ سال ہم نے دیکھا کہ مسلمان طلبہ کو ایک چھوٹی سی تعداد نے روزہ رکھنے، نماز پڑھنے، سکول سے باہر نکلنے اور حجاب پہننے کے لیے دباؤ میں ڈالا۔ میں نے اپنے سیاہ فام ساتھی ٹیچر کو نسلی طور پر بدسلوکی اور دھمکیوں کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھا۔ ایک اور ٹیچر جس کے ذاتی گھر پر  تقریباً حملہ ہونے والا تھا اور ایک اور کے گھر کی کھڑکی سے اینٹ پھینکی گئی۔‘ 

انہوں نے مزید کہا: ’یہ ایک غلط بیانیہ ہے کہ کچھ لوگ ہمارے سکول میں مسلمانوں کو مظلوم اقلیت ہونے کے بارے میں رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ درحقیقت سب سے بڑا اکثریتی گروپ ہے۔ جن کو سب سے زیادہ خطرہ ہے وہ دوسری اقلیتیں اور وہ مسلمان بچے ہیں جن پر کم توجہ دی جاتی ہے۔‘

سمپسن ملر کے وکیل ڈین روزن برگ نے کہا کہ جج نے نوٹ کیا  کہ اس کیس نے ’حقیقی عوامی دلچسپی کے مسائل کو ایسے حالات میں اٹھایا ہے جہاں سکول کا نقطہ نظر معاشرے کے ایک اہم حصے کے مذہبی نقطہ نظر سے متصادم ہے۔‘  

اس کیس کو غیر مذہبی سکولوں کے اس حق کو برقرار رکھنے کے طور پر دیکھا جائے گا کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ آیا طلبہ کو عبادت کے لیے وقت اور جگہ مختص کی جائے۔ 

وزیر تعلیم  گیلین کیگن نے مائیکلا کو ایک ’شاندار سکول‘ کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ یہ فیصلہ سکول کے تمام رہنماؤں کو اپنے طلبہ کے لیے صحیح فیصلے کرنے کا اعتماد فراہم کرے گا۔‘ 

انہوں نے کہا: ’میری سوچ ہمیشہ اس بارے میں واضح رہی ہے کہ ہیڈ ٹیچرز ہی اپنے سکول میں فیصلے کرنے کے لیے بہترین انتخاب ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 دوسری جانب طالبہ نے استدلال پیش کیا کہ یہ پالیسی جو انہیں دوپہر کے کھانے کے وقت تقریباً پانچ منٹ تکد نماز پڑھنے سے منع کرتی ہے، ان تاریخوں پر جب عقیدے کے اصولوں کے مطابق اس کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کلاسز کے دوران نہیں اور اس قسم کا امتیازی سلوک مذہبی اقلیتوں کو معاشرے سے بیگانہ ہونے کا احساس دلاتا ہے۔

طالبہ کے وکلا نے پہلے کہا تھا کہ ’نماز پر پابندی‘ نے غیر قانونی طور پر مذہبی آزادی کے ان کے حق کی خلاف ورزی کی ہے، انہوں نے اب مزید کہا کہ اس فیصلے سے انہیں محسوس ہوا جیسے وہ کوئی اجنبی ہوں۔ عدالت کو ٹی ٹی ٹی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ طالبہ صرف ایک معمولی درخواست کر رہی ہے کہ کھانے کے وقفے میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی جائے۔‘  

طالبہ نے انہیں سکول سے عارضی طور پر معطل کرنے کے مبینہ طور پر غیر منصفانہ فیصلوں کو بھی چیلنج کیا۔ 

جسٹس لنڈن، جنہوں نے جنوری میں لندن ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کی، نے کہا کہ ‘سکول کی ٹیم کا ماحول، ان کی شمولیت، سماجی ہم آہنگی وغیرہ اور عبادت کے حوالے سے پالیسی کو فروغ دینے کے مقصد کے درمیان ایک عقلی تعلق ہے۔’  

انہوں نے کہا: ‘سکول میں مسلم طلبہ کو عبادت سے روکنے کی  پالیسی سے ہونے والا نقصان میرے خیال میں ان مقاصد سے زیادہ اہم نہیں ہے جسے وہ مسلم طلبہ سمیت، سکول کی کمیونٹی کے مفاد میں فروغ دینا چاہتے ہیں۔’ 

جج نے طالبہ کی طرف سے انہیں عارضی طور پر سکول سے خارج کرنے کے فیصلے کو بھی برقرار رکھا۔ 

سکول کے وکلا نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 700 طلبہ، جن میں سے تقریباً نصف مسلمان ہیں، پر مشتمل سکول کے گورنر اور ہیڈ ٹیچر کو اپنی پالیسیوں پر  صوابدید یا فیصلے کا حق ہے۔   

عدالت کو بتایا گیا کہ بیربل سنگھ نے مبینہ طور پر ’جعلی معلومات اور غلطیوں‘ کی بنیاد پرپہلی بار یہ پالیسی گذشتہ سال مارچ میں متعارف کرائی تھی جسے مئی میں گورننگ باڈی کی حمایت حاصل تھی۔ 

مارچ 2023 میں تقریباً 30  طلبہ نے سکول کے صحن میں بلیزر بچھا کر نماز پڑھنا شروع کی۔ 

سکول کے وکلا نے کہا کہ  باہر نماز پڑھتے دیکھے گئے طلبہ نے سکول کے مذہب کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک مشترکہ مہم میں حصہ لیا، جس کے بعد سے ایک ہٹائی گئی آن لائن پٹیشن پر بھی ہزاروں دستخطوں حاصل کیے گئے۔  

سماعت کے دوران لیکن فیصلے سے پہلے بیربل سنگھ نے سنڈے ٹائمز کو بتایا کہ قانونی عمل ’بڑے پیمانے پر نقصان‘ کا باعث بن  رہا ہے اور دلیل دی کہ سکول کو سیکیولر ہونے کی اجازت ہونی چاہیے۔ 

انہوں نے اخبار کو بتایا کہ اگر ہم یہ مقدمہ ہار گئے تو سکول یقینی طور پر اپیل کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا: ’میں بچوں کو نسل اور مذہب کے مطابق تقسیم نہیں کروں گی۔ یہ میری نگرانی میں نہیں ہو گا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ