احتجاج کرنے والے امریکی طلبہ 1960 کے مظاہروں سے سیکھیں

50 سال سے زیادہ عرصہ قبل جامعات میں ہونے والے مظاہرے اور دھرنے شاندار دن تھے، جنہیں اس وقت کے مظاہروں کے شرکا اور آج کے مؤرخین نے ریاستی طاقت کے غلط استعمال کے خلاف جائز چیلنج طور پر دیکھا۔

لاس اینجلس میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے کیمپس میں پولیس افسران کو فلسطینی حامی احتجاجی کیمپ کے باہر کھڑا دیکھا جا سکتا ہے (روئٹرز)

اپریل کے بعد مئی کے آغاز کے ساتھ ہی پولیس نے دو بڑی یونیورسٹیوں پر چڑھائی کر دی جن میں سے ہر ایک امریکہ کے ساحل پر واقع تھی اور سینکڑوں طالب علموں کو منتشر کر دیا۔

کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج کرنے والے طلبہ زیادہ تر پرامن طور پر منتشر ہو گئے اور تاریخی ہیملٹن ہال پر ان کا قبضہ ختم ہو گیا۔ اگرچہ وہ عملی طور پر کیمپس میں موجود رہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس (یو سی ایل اے) میں یہ ایک اور کہانی تھی، جہاں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں، پہلے خود طلبہ کے درمیان، فلسطینی اور اسرائیل نواز گروہوں میں، اور پھر پولیس کے ساتھ۔

بہت سے امریکی شہریوں کے نزدیک یہ مظاہرے اور ان کا دائرہ جس انداز میں پھیلا اور انتہائی اعتماد کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھنے والے ’پولیس اہلکاروں‘ نے طلبہ کو منتشر کیا، اس کا مطلب محض ایک عام وقتی خبر سے بڑھ کر ہے۔

ان مظاہروں نے یادیں تازہ کر دیں۔ ان میں اور 1960 کی دہائی کے اواخر اور 1970 کی دہائی کے اوائل میں طلبہ کے مشہور مظاہروں میں مماثلت پیدا ہو گئی۔ اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے، بہت سے میڈیا اداروں نے، خاص طور پر امریکہ میں، بلکہ یورپ میں بھی، موبائل فون سے بنائی گئی کلر فوٹیج کو ماضی کے دھندلے بلیک اینڈ کلپس کے ساتھ جوڑ دیا۔

یہاں تک کہ وہ لوگ جن کی عمر کم تھی اور ماضی میں ہونے والے مظاہروں میں حصہ لینا تو دور کی بات ہے انہیں یہ مظاہرے یاد تک نہیں، امریکیوں کی اکثریت نے اپنے والدین اور دادا دادی اور متعلقہ یونیورسٹیوں کی جانب سے فخریہ انداز میں پیش کی جانے والی تصویری تاریخ  سے کچھ نہ کچھ ضرور جانا ہو گا۔

50 سال سے زیادہ عرصہ قبل جامعات میں ہونے والے مظاہرے اور دھرنے شاندار دن تھے، جنہیں اس وقت کے مظاہروں کے شرکا اور آج کے مؤرخین نے ریاستی طاقت کے غلط استعمال کے خلاف جائز چیلنج طور پر دیکھا۔ طاقت کا یہ غلط استعمال ویت نام کی جنگ، جبری بھرتی اور گہری جڑیں رکھنے والی سماجی نا انصافی کی شکل میں تھا جس کے تحت سیاہ فام امریکیوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دیا گیا۔

ان مظاہروں کے اپنے ہیرو اور جان دینے والے لوگ تھے۔ 1970 میں اوہائیو کی کینٹ سٹیٹ یونیورسٹی میں نیشنل گارڈ کے ہاتھوں جان سے جانے والے چار طلبہ کی موت ایسے حالات میں ہوئی جو آج تک متنازع ہیں۔ یونیورسٹیوں میں صرف ایک چھوٹی سی یاد دہانی اس وقت کی یادیں تازہ کر سکتی ہے جب بہت سے لوگوں نے سوچا کہ ملک میں مزید افراتفری پھیلنے والی ہے۔

مزید یہ کہ آج بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے احتجاج جس کا اظہار مارچ، دھرنوں، کیمپوں اور امریکہ بھر میں تعلیمی عمارتوں پر قبضے کی شکل میں کیا گیا، یقینی طور پر ماضی میں امریکہ کے تجربے کے قریب ہو سکتا ہے۔

بعض لوگوں کے نزدیک آزادی اظہار، ہراسانی کے خلاف می ٹو مہم، ٹرمپ ازم وہ بہت سی دوسری باتیں جو نام نہاد ثقافتی جنگوں کا حصہ ہیں، اس بات کی شہادت ہیں کہ امریکہ انہی خطرناک حد تک متحرک سیاسی اور فلسفیانہ طاقتوں کی گرفت میں ہے جو ماضی میں سرگرم تھیں۔ جوں جوں بات آگے بڑھی، اگلا مرحلہ تشدد کا ہو سکتا ہے۔

امریکہ میں باکس آفس پر کامیاب ہونے والی فلم ’سول وار‘ حال ہی میں برطانیہ میں ریلیز کی گئی ہے، اس میں اس بات کا اشارہ موجود ہے۔

اس سے پہلے کہ آج کے امریکی طلبہ مظاہرین لازمی طور پر نصف صدی قبل کے ویت نام  کی جنگ کے خلاف اور شہری حقوق کے لیے اٹھنے والے مظاہرین کا کردا ادا کرنا شروع کریں، یہ سوال پوچھنے لائق ہے کہ حقیقت میں ماضی اور حال کے مظاہرین میں کتنی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ اور یہاں، جواب، جیسا کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے فراہم کیا جو واقعی ماضی کے مظاہروں میں موجود تھے (اور یاد رکھیں کہ وہ وہاں موجود تھے) ان کے مطابق زیادہ مماثلتیں موجود نہیں۔ میں اتفاق کروں گا کہ میں ان کم عمر لوگوں سے ایک تھا جنہیں وہاں نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن میرے رشتہ دار وہاں موجود تھے۔

کم از کم اب تک کا ایک اہم فرق لوگوں کی تعداد ہے۔ اگرچہ ٹیلی ویژن فوٹیج میں حالیہ مظاہروں کو بہت بڑا دکھایا گیا ہے، لیکن 1960 کی دہائی کے آخر اور 1970 کی دہائی کے آغاز میں بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والی سماجی اور تعلیمی بدامنی کے مقابلے میں اس میں شامل لوگوں کی حقیقی تعداد اب بھی کم ہے۔

دوسرا فرق، کم از کم کچھ اداروں کی جانب سے، پولیس کو بلانے کے لیے تیار ہونا ہے۔ عمومی طور پر یونیورسٹیاں اور خاص طور پر امریکی یونیورسٹیاں بنیادی طور پر اپنے طور پر معاملات کو سنبھالنے پر فخر کرتی ہیں۔

کولمبیا یورنیورسٹی کی صدر مینوش شفیق نے لندن سکول آف اکنامکس کی سربراہی کرنے اور اس سے قبل بینک آف انگلینڈ کے ڈپٹی گورنر کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد 2022 میں یہ عہدہ سنبھالا۔ انہوں نے پہلے دھرنے کے دوسرے روز پولیس بلا لی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی کے بھرپور انداز میں کام کرنے کی راہ میں حائل ہونے والا واضح خطرہ موجود ہے۔‘

ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے مظاہرین کو معطل کرنے یا یونیورسٹی سے نکالنے کی دھمکی دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ مزید برآں  کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ زیادہ تر طلبہ خاموشی سے منتشر ہو گئے، اگرچہ انہوں نے دوبارہ کیمپ لگا لیا، لیکن یو ایل سی اے (یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس) میں یہ صورت حال نہیں رہی۔

انضباطی کارروائی کی ایسی دھمکیاں، قبل ازیں ہونے والے مظاہروں کے معاملے میں بے کار ثابت ہوتیں کیوں کہ زیادہ تر کیمپسز میں کھلی بغاوت جاری تھی۔

تاہم 1960 کی دہائی میں ہونے والے مظاہروں کے مقابلے میں شائد سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ ان مظاہروں سے متعلق مسائل نے طلبہ کو براہ راست متاثر کیا۔ ان مسائل کا تعلق پالیسوں اور ان کے اپنے ملک کے سماجی تانے بانے کے ساتھ تھا۔

ویت نام کی جنگ کے معاملے میں درست اور زیادہ تر غلط باتیں تھیں۔ جبری بھرتی کا معاملہ اور بہت سے سیاہ فام امریکیوں کے لیے بنیادی شہری حقوق کا فقدان تھا۔ یہ مسائل الگ الگ اور متعلقہ تھے، اور احتجاج میں حقیقی اضافے کا باعث بنے، جو نسلی طور پر بھی تھا، جس میں بڑی عمر کے بچے والدین کے خلاف کھڑے ہو گئے۔

آج کے اور اس وقت کے حالات میں بہت کم مماثلت ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کی حالت زار کو امریکہ اور دیگر طالبہ کے لیے براہ راست تشویش کے طور پر دیکھنا مشکل ہے۔ طلبہ کے احتجاج کو بین الاقوامی دنیا کی علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کے تحت فوری رابطہ اور سوشل میڈیا لوگوں کو ان کی سرحدوں سے باہر کے مقاصد کے ساتھ خود کو منسلک کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ کیا اس سے یہ بات کم و بیش قابل ستائش ہو جاتی ہے کہ طلبہ ایسے مقصد کی خاطر اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا رہے ہیں جو صرف اس اعتبار سے ان کا ہے اور اسے عالمگیر تصور کیا جا سکتا ہے؟

میں اس سوال کو چھوڑ دوں گا، اس حقیقت سے آگے دیکھتے ہوئے کہ سات اکتوبر کے حملوں تک، میں نے ایسی تقریبات میں شرکت کی جہاں 40 سال سے کم عمر کسی شخص نے بھی فلسطین کاز کے بارے میں کسی خاص علم کا اظہار یا دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

یاسر عرفات نام کی تقریباً کوئی اہمیت نہیں تھی۔ جہاں تک پی ایل او (فلسطین کی تنظیم آزادی) کی انتہا پسندی سے بین الاقوامی سطح پر لاحق خطرے کا تعلق ہے، آپ کے لیے وسیع تر فلسطینی یا مشرق وسطیٰ کے پس منظر کے حامل افراد کو چھوڑ کر ایک طالب علم کی عمر کے کسی بھی فرد کو تلاش کرنا مشکل ہوگا، جو اس کے بارے میں کچھ بھی جانتا ہو۔

ضروری نہیں کہ اس صورت حال میں تبدیل ہوئی ہو۔ مغربی دنیا میں اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس وقت فلسطینوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور اس لحاظ سے ان کی کاز بہت سے ملکوں کے نزدیک ناانصافی بن چکی ہے۔ صرف امریکی ادارے یہ مشکل محسوس نہیں کر رہے کہ یہ کاز یہودیوں کے خود ان کی سلامتی اور ریاست کے اس دعوے سے متصادم ہے جس پر وہ سختی کے ساتھ کاربند ہیں۔

مشرق وسطیٰ کا تنازع جو فوری طور پر دنیا بھر میں پھیل گیا۔ اس تنازعے کا عکس یونیورسٹی میں (جیسا کہ یو سی ایل اے میں) اور دیگر مقامات پر ہونے والی جھڑپوں میں دکھائی دیتا ہے۔ یہودی دشمنی کے الزامات لگائے گئے جو بعض اوقات درست اور بعض غلط تھے۔ طلبہ، وسیع تر تناظر میں رائے عامہ کی طرح، تقسیم کا شکار ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں منتظمین، اساتذہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مشکلات کھڑی ہوں گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

موجود اور ماضی کی صورت حال کے درمیان مماثلتیں اتنی زیادہ نہیں جتنی دکھائی دیتی ہیں تو اس صورت میں نتائج بھی توقع سے بڑھ کر مختلف ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ کامیابی کا توازن الٹا ہو سکتا ہے۔ بہر حال 1968 میں طلبہ کے مظاہروں سے حقیقت میں کیا کامیابی ملی؟

ان سے مدد مل سکتی تھی لیکن خود ان سے ویت نام کی جنگ ختم کروانے میں کوئی مدد نہیں ملی۔ جنگ کے خاتمےکی وجوہات اپنی تھیں۔ مظاہروں نے صدر رچرڈ نکسن کو استعفی دینے پر مجبور نہیں کیا جو زیادہ تر ان کا اپنا فیصلہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ طلبہ کی بدولت شہری حقوق کی تحریک میں تیزی آئی ہو لیکن ممکن ہے کہ مارچز اور کامیابیاں ان کی شمولیت کے بغیر وقوع پذیر ہوئی ہوں۔ ماضی میں جھانک کر دیکھا جائے تو طلبہ کا احتجاج اپنے مقصد کی بجائے اور گہری سماجی تبدیلیوں کی زیادہ عکاسی کرتا ہے۔

موجودہ مظاہروں کو اسی طرح دیکھا جا سکتا ہے، مقصد کی بجائے علامت کے طور پر، امریکی رائے عامہ میں بڑی تبدیلی کے طور پر۔ حالیہ مہینوں میں جو بائیڈن نے غزہ کے بارے میں امریکی پالیسی کو آہستہ آہستہ اس حد تک تبدیل کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں اور یہ جاننا مشکل ہے کہ وہ ایسا صرف بیرون ملک موجود ناقدین کو خوش کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔

ماضی کو تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو 2024 میں طلبہ کے مظاہروں کو مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی میں تاریخی تبدیلی کے نقیب کی طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جزوی طور پر اس بات کی وضاحت غزہ کے بارے میں تازہ معلومات اور جزوی طور پر امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد جو اب بھی کم ہے، میں اضافے سے ہو گی اور جزوی طور پر امریکن اسرائیل لابی کے اثرورسوخ میں کمی سے ہو گی۔

یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس سے نسلوں اور نظریے میں پائے جانے والے اختلافات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ طلبہ تحریک اس تبدیلی کی رہنمائی کرے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر