گندم خریدنے کا سرکاری وعدہ، کسانوں کا پھر بھی احتجاج کا اعلان

چیئرمین کسان اتحاد خالد کھوکھر کا کہنا ہے کہ 10 مئی کو نماز جمعے کے بعد شروع ہونے والے احتجاج کو پورے ملک میں پھیلایا جائے گا۔

17 اپریل 2024 کی اس تصویر میں کسان لاہور کے مضافات میں گندم کی کٹائی کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں کاشت کاروں کی نمائندہ تنظیم کسان اتحاد نے اتوار کو حکومت کی جانب سے 18 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کے اعلان کے باوجود 10 مئی سے ملک گیر احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

چیئرمین کسان اتحاد خالد کھوکھر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 10 مئی کو نماز جمعے کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے گا جسے پورے ملک میں پھیلایا جائے گا۔

کسان اتحاد کی جانب سے احتجاج کی کال ایک ایسے وقت دی گئی ہے جب وزیراعظم شہباز شریف پہلے ہی پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) کے ذریعے کسانوں سے 18 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کا حکم دے چکے ہیں۔

کسانوں سے گندم خریدنے کا فیصلہ ہفتے کو لاہور میں گندم کی خریداری اور باردانہ کے حصول میں کسانوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔

جبکہ سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے رواں ہفتے ملک میں جاری گندم کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک حکومتی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔

اے پی پی کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے ہفتے کو کاشت کاروں کو ان کی گندم کی فروخت اور گندم کے تھیلے حاصل کرنے میں درپیش مسائل کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے تحت ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جس نے چار روز میں اپنی رپورٹ پیش کرنا ہے۔

تاہم کسان اتحاد کے سربراہ خالد کھوکھر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس بارے میں کہا کہ ’وفاقی حکومت کسانوں سے 14 لاکھ میٹرک ٹن گندم پہلے ہی خریدنے کا ارادہ رکھتی تھی اور 18 لاکھ میٹرک ٹن کی جنس میں پہلے والا عدد بھی شامل کیا گیا ہے۔‘

چیئرمین کسان اتحاد کے مطابق ’وزیر اعظم نے جو نیا اعلان کیا ہے وہ دراصل چار لاکھ میٹرک ٹن کا ہے، جسے پرانا وعدہ شامل کر کے 18 لاکھ میٹرک ٹن بنا دیا گیا ہے۔‘

ان کے خیال میں یہ گندم کی اتنی قلیل مقدار ہے کہ اس سے کسانوں کا مسئلہ حل ہی نہیں ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ احتجاج میں ہزاروں کسان اور سینکڑوں ٹریکٹر ہوں گے۔‘

دوسری جانب چند روز قبل پنجاب کے وزیر خوراک بلال یاسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’ہماری حکومت ایک ماہ پہلے آئی ہے مگر اس سے پہلے سرکاری گوداموں میں 26 لاکھ میٹرک ٹن گندم کا سٹاک موجود تھا، جو نگران حکومت نے درآمد کر رکھی ہے۔ ہمارے گوداموں میں گندم رکھنے کی جگہ موجود نہیں۔ حکومت جو گندم خریدے گی وہ بھی جگہ کرائے پر لے کر رکھی جائے گی۔‘

اس بارے میں خالد کھوکھر نے دعویٰ کیا کہ ’گندم درآمد کرنے کا فیصلہ صرف پیسہ کمانے کے لیے تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ملک میں 44 لاکھ میٹرک ٹن گندم موجود تھی پھر بھی درآمد کی گئی۔ ایک بوٹی کے لیے اونٹ ذبح کر دیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی حکومت کے دوران پاکستان نے بڑی مقدار میں بیرون ملک سے گندم درآمد کی تھی، جس سے سابق نگران وزیر اعظم کے مطابق آٹے اور روٹی کی قیمت کمی کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔

خالد کھوکھر کا کہنا تھا کہ ’گندم کی درآمد میں ای سی سی اور سمری لانے والے تمام حصہ دار تھے۔ 100 ارب مافیا نے کمایا۔ ملک کا ایک ارب ڈالر خرچ ہوا۔ کسان اس وقت جس تکلیف میں بیان نہیں کر سکتا۔‘

حکومت پنجاب کی جانب سے رواں سال گندم کی قیمت 3900 روپے فی من مقرر کی تھی۔ اب جب کہ صوبے میں بیشتر علاقوں میں کٹائی مکمل ہو چکی ہے جس سے گندم کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں لیکن حکومتی ریٹ پر ابھی تک خریداری شروع نہیں ہو سکی۔

اس صورت حال میں گندم کی عام مارکیٹ میں قیمت 28 سو روپے تک گر چکی ہے۔

خالد کھوکھر نے کہا کہ وفاقی حکومت پاسکو کے ذریعے گندم کی خریداری کرے گی جب کہ خصوصاً پنجاب کے کئی علاقوں یا تحصیلوں میں یہ خریداری پاسکو کے بجائے صوبائی محکمہ خوراک کرتا ہے۔

انہوں نے کہا: ’میں ضلع خانیوال کی چار تحصیلوں میں سے تین محکمہ خوراک کے پاس ہیں جب کہ پاسکو صرف ایک میں گندم کی خریداری کرتا ہے تو ایسے میں بھلا کیسے تمام کسانوں کا مسئلہ حل ہو پائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت