انتشاری سیاسی ٹولے کے لیے ایک ہی راستہ، صدق دل سے معافی مانگے: پاکستان فوج

میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ ’ایسے انتشاری سیاسی ٹولے کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ قوم کے سامنے صدق دل سے معافی مانگے اور یہ وعدہ کرے کہ وہ نفرت کی سیاست کو چھوڑ کر تعمیری سیاست میں حصہ لیں گے۔‘

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے تحریک انصاف کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ ’انتشاری ٹولے سے کوئی بات نہیں‘ ہو سکتی ہے۔

میجر جنرل احمد شریف نے منگل کو ایک نیوز کانفرنس میں تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی طرح کی ’ڈیل اور ڈھیل‘ سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ’اگر کوئی سیاسی سوچ اور سیاسی ٹولہ اپنی فوج پر حملہ آور ہو، عوام اور فوج میں خلیج پیدا کرے اور تضیحک کرے، دھمکیاں دے تو اس سے کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایسا سیاسی انتشاری ٹولہ جو آپ کے سامنے جو کچھ کر رہا اور کرواتا آ رہا ہے اس کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی ہم نہیں کر سکتے۔‘

میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ ’ایسے انتشاری سیاسی ٹولے کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ قوم کے سامنے صدق دل سے معافی مانگے اور یہ وعدہ کرے کہ وہ نفرت کی سیاست کو چھوڑ کر تعمیری سیاست میں حصہ لیں گے۔‘

پاکستان میں نو مئی 2023 کو ملک بھر میں عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا اور اس کی منصوبہ بندی اور ان حملوں کو کروانے کا الزام تحریک انصاف پر عائد کیا جاتا رہا ہے لیکن تحریک انصاف کی قیادت ایسے الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔

نو مئی کے واقعات

میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ 9 مئی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں۔ ’اس دن عوام اور فوج میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔‘

نو مئی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے جنرل احمد نے کہا کہ ’یہ صرف افواج پاکستان کا مقدمہ نہیں یہ پوری پاکستانی عوام کا مقدمہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 9 مئی کرنے والے اور کروانے والوں کو آئین کے مطابق سزا دینا پڑے گی۔‘

’ہم سب نے دیکھا کس طریقے سے لوگوں کی ذہن سازی کی گئی، ہم نے دیکھا کس طرح کچھ سیاسی رہنماؤں نے چن چن کر بتایا کہ یہاں حملہ کرو، ہم نے دیکھا صرف فوجی تنصیبات پر حملے کرائے گئے جب یہ شواہد اور ساری چیزیں سامنے آئیں تو عوام کا غصہ اور رد عمل بھی آپ نے دیکھا، آپ نے دیکھا عوام کس طرح انتشاری ٹولے سے پیچھے ہٹے، جب کھل کر سامنے آگیا تو پروپیگنڈا شروع کیا گیا یہ فالس فلیگ آپریشن ہے۔‘

نو مئی پر عدالتی کمیشن بنانے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن تو اس چیز پر بنتا ہے جس پر کوئی ابہام ہو۔ یہ واقعات تو تاریخ پر ہیں اور آپ کے سامنے ہیں یہ بالکل واضح ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ کمیشن کے لیے تیار ہیں لیکن کمیشن پھر تہہ تک جائے، کمیشن یہ احاطہ کرے 2014 کے دھرنے کے مقاصد کیا تھے، پارلیمنٹ پی ٹی وی پر حملے کا بھی احاطہ کرے، کس طرح لوگوں کو یہ ہمت دی گئی، سول نافرمانی کریں، بجلی کے بل جلائیں، کس طرح 2016 میں کے پی کے وسائل سے دارالحکومت پر دھاوا بولا گیا۔ جوڈیشل کمیشن اس بات کا بھی احاطہ کرے، وہ یہ بھی دیکھے آئی ایم ایف کو کس طرح خط لکھے گئے، لابنگ کی گئی کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے دیا جائے اسے پیسہ نہ دو۔‘

ان کا اصرار تھا کہ کمیشن اس بات کا بھی احاطہ کرے کہ فنڈنگ کہاں سے آرہی تھی، کہاں جارہی تھی، کون لوگ تھے جو سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف نفرت پھیلا رہے تھے۔ ’اگر ہم نے ان چیزوں کا احاطہ نہیں کیا تو ایک مخصوص ٹولہ یہ سارے کام کرتا رہے گا تو ایک دن وہ اپنی فوج پر پل پڑے گا۔‘

پی ٹی آئی کا مؤقف

پاکستان تحریک انصاف کے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے لیے ترجمان زلفی بخاری نے ایکس پر ایک پیغام میں کہا: ’ہمیں اپنی سیاسی پریشانی سے اندھا نہیں ہونا چاہیے کہ جب ہم ایک اچھی طرح سے منظم اور واضح سیاسی پریس کانفرنس کو دیکھتے ہیں تو ہم اس کی تعریف نہیں کرسکتے ہیں۔ اس لیے میں سب سے پہلے تسلیم کروں گا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے آٹھ فروری سے حکومت کے لیے ایک بہت طویل، پرسکون اور تفصیلی پریس کانفرنس کی ہے۔

’انہوں نے سیاسی سمت اور وژن دیا ہے کہ عدالتوں کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ہی نو مئی پر کوئی عدالتی کمیشن ہو گا۔ کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے نہیں آئے گی اور نہ ہی ہم یہ بتائیں گے کہ ہزاروں بے گناہ جیلوں میں کیوں پڑے ہیں۔‘

پیغام میں مزید کہا گیا: ’چوری کے مینڈیٹ پر قابو پانا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ بغیر کسی جواز کے صرف پی ٹی آئی کو نشانہ بنایا جائے گا اور ان کے ساتھ غیر قانونی سلوک کیا جائے گا۔‘

’بشام حملے کی منصوبہ بندی فغانستان میں کی گئی‘

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ بشام میں چینی انجینئرز پر خودکش حملے کی منصوبہ بندی پڑوسی ملک افغانستان میں کی گئی۔

راولپنڈی میں ایک اخباری کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ 26 مارچ 2024 کو خیبرپختونخوا کے بشام علاقے میں داسو ڈیم پر کام کرنے والی چینی انجینئرز کی گاڑی کو خود کش بم حملہ آور نے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں پانچ چینی باشندے اور ایک پاکستانی لقمہ اجل بن گئے۔

’اس خودکش حملے کی کڑیاں بھی سرحد پار سے جا ملتی ہیں، اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی۔ دہشت گرد، سہولت کاروں کو افغانستان سے کنٹرول کیا جارہا تھا۔‘

آئی ایس پی آر کے ترجمان نے کہا کہ خودکش بمبار بھی افغان شہری تھا۔ افواج پاکستان اس حملے کی شدید مذمت کرتی ہے اور ان کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹھرے میں لانے کے لیے ہر ضروری اقدامات کیے جارہے ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے فوری طور پر اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر کی بڑی وجہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو پڑوسی ملک افغانستان سے ملنے والی سہولیات اور اس کے علاوہ جدید اسلحہ کی فراہمی بھی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آرمی چیف کئی بار واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا علاقائی امن و استحکام کو متاثر کرنا اور عبوری افغان حکومت کی دوحہ امن معاہدے سے انحراف ہے۔

ایک سوال کے جواب میں فوج کے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان میں تقریباً 29 ہزار چینی باشندے موجود ہیں، ان میں 2500 پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جبکہ 5500 چینی شہری دیگر ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ پاکستان میں موجود تمام چینی باشندوں کی سکیورٹی اولین ترجیح ہے اور اس کو یقینی بنانے کے لیے ہرممکن اقدامات کیے  جا رہے ہیں۔

فوجی ترجمان نے ابتدا میں سال 2023 اور 2024 میں ہونے والی فوجی کارروائیوں کی تفصیل بیان کی۔

میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے دل و جان سے کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کالعدم تنظیموں کے لیے دستیاب پناہ گاہوں اور افغان سرزمین سے آزادانہ کاررائیوں پر تحفظات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور اپنے شہریوں کو ہر قیمت پر تحفظ فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا۔

جنرل احمد شریف نے کہا کہ ملک میں غیر قانونی غیرملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ وسیع تر ملکی مفاد میں کیا گیا جس کے تحت اب تک پانچ لاکھ 63 ہزار 639 افغان باشندے واپس جا چکے ہیں تاہم لاکھوں افغان اب بھی پاکستان میں رہ رہے ہیں۔

ماضی میں پاکستان میں شدت پسندی کی لہر کے بعد فوج کے ترجمان اکثر پریس کانفرنس کیا کرتے تھے لیکن ضرب عضب جیسی قدرے کامیاب فوجی کارروائی کے بعد ان کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ اب اکثر تحریری بیان کے ذریعے کی خبر میڈیا تک پہنچائی جاتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان