اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات: پی ٹی آئی کے لیے رکاوٹ کیا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ سے ’رابطوں‘ کی قیاس آرائیاں جاری ہیں، جن میں اس وقت اضافہ ہوا، جب پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی نے ’فوج سے جلد مذاکرات ہونے‘ کا عندیہ دیا۔

 پاکستان تحریک انصاف کی رہنما فلک ناز چترالی نو مارچ 2024 کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس میں صدارتی انتخابات کے دوران اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے آمد پر جیل میں قید اپنے پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان کی تصویر اٹھائے ہوئے ہیں (عامر قریشی / اے ایف پی)
 

ملک کے سیاسی منظرنامے میں گذشتہ کچھ دنوں سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسٹیبلشمنٹ سے ’رابطوں‘ کی قیاس آرائیاں جاری ہیں، جن میں اس وقت اضافہ ہوا، جب پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی نے ’فوج سے جلد مذاکرات ہونے‘ کا عندیہ دیا۔

شہریار آفریدی کے بیان کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی اور بعض پی ٹی آئی رہنماؤں نے ان کے بیان کی حمایت تو کچھ نے نفی کی۔

رہنماؤں کے حالیہ متضاد بیانات کے بعد اب بالآخر بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جس میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز شامل ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق عمران خان نے یہ انکشاف اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت کے دوران صحافیوں سے بات چیت کے دوران کیا جبکہ علی امین گنڈاپور نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’پاکستان کی خاطر اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں،‘ تاہم اس سے قبل انہوں نے شہریار آفریدی کے بیان پر ردعمل دینے سے گریز کیا تھا۔

تحریک انصاف کے حالیہ فیصلے کے بعد یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے تمام معاملات اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی طے کیے جائیں گے؟ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پی ٹی آئی کے رابطوں میں کیا پیش رفت ہوئی ہے؟ کیا پی ٹی آئی کی جانب سے نامزد کیے گئے افراد واقعی مذاکرات کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟ کیا ان مذاکرات میں حکومت کوئی کردار ادا کر سکتی ہے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے ان ہی سوالات کے جوابات جاننے کے لیے سیاسی تجزیہ کاروں اور مبصرین سے رابطہ کیا۔

سابق سیکرٹری دفاع جنرل ریٹائرڈ نعیم لودھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’عام انتخابات سے قبل ہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان رابطے جاری تھے۔ دونوں طرف سے شرائط میں فرق ہے۔ فوج کی جانب سے عمران خان کو نو مئی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے کا کہا گیا ہے اور یہ بھی کہ وہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں نعیم لودھی نے کہا کہ ’عمران خان نے جواب میں کہا کہ میں نے نو مئی پلان نہیں کیا۔ وہ بات کیسے مانوں جو کام میں نے کیا ہی نہیں، البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ برا ہوا، جس کی غیر جانبدارانہ انکوائری ہونی چاہیے۔ اگر پی ٹی آئی سے منسلک افراد ذمہ دار ٹھہرے تو میں انہیں جماعت سے نکالوں گا اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔’

نعیم لودھی کے مطابق: ’ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اعتماد کی کمی ہے۔ میرے خیال سے دوسری سیاسی جماعتیں دونوں کے درمیان مذاکرات نہیں چاہتیں کیونکہ ان کی بقا اس پر منحصر ہے۔ پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہی نہیں دیگر سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین بھی پیغام رسانی ہو رہی ہے۔‘

سابق سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ ’وہ ثالثی کرنے والے گروپ کو وسیع کرنا چاہ رہے ہیں تاکہ یہ ایک پریشر گروپ بنے جس میں میڈیا، عدلیہ اور سیاست دانوں سے منسلک غیر جانبدار افراد ہونے چاہییں۔ اس گروپ کی تشکیل شروع ہو گئی ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ متعدد افراد کو تعلقات بہتر ہونے کی توقع نہیں کیونکہ بظاہر دونوں جانب سے سخت موقف ہی اپنایا گیا ہے۔

 اس معاملے پر آرمی چیف سے بات چیت کے سوال پر نعیم لودھی نے بتایا کہ ’اس معاملے پر آرمی چیف سے براہ راست بات نہیں ہوئی لیکن میری باتیں ان تک پہنچ جاتی ہیں اور مجھے ان سے بالواسطہ جواب بھی مل جاتا ہے۔‘

’پی ٹی آئی۔اسٹیبلشمنٹ مذاکرات میں حکومت رکاوٹ‘

اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سیکرٹری جنرل اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی کی جانب سے بھی اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے مابین ثالثی کی کوشش سے متعلق خبریں آ چکی ہیں۔

محمد علی درانی نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مذکرات کو لے کر ذہن سازی ضرور ہوئی ہے لیکن ’مجھے اس پر کوئی بریک تھرو نظر نہیں آتا۔‘

انہوں نے کہا: ’کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ ہے لیکن دراصل حکومت کو ان مذاکرات سے مسئلہ ہے۔ حکومت اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات نہیں چاہتی کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ایسا ہونے سے انہیں واپس جانا پڑے گا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’آج اگر فوج پی ٹی آئی سے براہ راست مذاکرات شروع کر دے تو حکومت کے لیے مشکل پیدا ہو جائے گی۔‘

بقول محمد علی درانی: ’اصل مذاکرات سیاست دانوں کے درمیان ہوں گے۔‘

پی ٹی آئی کی جانب سے تین رہنماؤں کو مذاکرات کے لیے نامزد کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کے پیچھے ان کی ’سیاسی سادگی‘ ہے۔ بقول محمد علی درانی: ’اداروں سے مفاہمت کے لیے کمیٹیاں نہیں بنائی جاتیں، اجلاس میں کوئی فیصلے نہیں ہوتے بلکہ بیک ڈور رابطوں کے ذریعے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ مذاکرات کے لیے نام دینے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ کمیٹیوں اور کمیشن سے کبھی کچھ نہیں نکلا۔‘

پی ٹی آئی کا فیصلہ اداروں کو سیاست میں مداخلت کی دعوت؟

پاکستان پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے فیصلے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان اور پارٹی کے ترجمان اداروں سے سیاسی معاملات میں مداخلت کا کہہ رہے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما شیری رحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ہے کہ ’صدر مملکت آصف علی زرداری نے ملک کی خاطر پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ڈائیلاگ اور مفاہمت کی دعوت دی، تاہم تحریک انصاف کی جانب سے صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے مطالبے افسوس ناک ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’پی ٹی آئی ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کی شکایت کرتی ہے تو دوسری طرف پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ڈائیلاگ کی پیشکش کو ٹھکرا کر اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ادارے کہہ رہے ہیں ہم سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن بانی پی ٹی آئی اور پارٹی رہنما اداروں سے سیاست میں مداخلت کا کہہ رہے ہیں۔‘

دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کے خلاف ملین مارچ اور مزاحمت کے ذریعے حکومت کو ہٹانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

ایسے میں سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد کی طرف سے ایک اہم بیان سامنے آیا ہے اور انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ کے ذریعے تحریک انصاف کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تجویز دی۔

صاحبزادہ حامد رضا کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے بھی اس بیان کی کسی حد تک حمایت کی۔

دوسری جانب سول ملٹری تعلقات پر کام کرنے والے صحافی سرل المیڈا نے مذاکرات کی کامیابی کو ’عمران خان کی سوچ بدلنے‘ سے مشروط کیا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’پی ٹی آئی میں سب فوجی قیادت سے بات کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی کسی ایسے انتظام کو ترجیح دیتا ہے، جس سے وہ فوج کے شانہ بشانہ حکومت کر سکیں۔‘

سرل نے مزید کہا کہ جب عمران خان اپنی سوچ کو بدلیں گے تب ہی یہ تحریک ہوگی۔ ’فوج صرف اس وقت مذاکرات کا رخ کرے گی جب وہ یہ فیصلہ کرے گی کہ مسلم لیگ ن ایک اثاثے سے زیادہ سیاسی بوجھ (liability) ہے۔ اس وقت اسے ایک متبادل کی ضرورت ہوگی، ایسے میں پی ٹی آئی ایک آپشن ہو سکتی ہے۔‘

صحافی ابصار عالم نے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ گذشتہ دو سالوں کے علاوہ پی ٹی آئی پر ہمیشہ سے ’اسٹیبلشمنٹ کی سیاست ‘کرنے کا اعتراض رہا ہے۔ ’پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ سے ہی بات کرنی ہے حالانکہ سیاسی جماعتوں کو آپس میں بات کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی وہی سیاست کرنا چاہتی ہے جو پاکستان میں رائج ہے۔‘

ابصار عالم کے مطابق: ’ملک کی موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے حالات میں بہتری کی ضرورت ہے اور اسی سے جمہوریت اور آئین مضبوط ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست