چینی انجینیئرز پر حملے کے سی پیک پر اثرات

حالیہ حملوں کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ چین کی توجہ اقتصادی منصوبوں سے ہٹ کر چینی منصوبوں اور شہریوں کی حفاظت کی طرف ہو سکتی ہے ۔

بشام میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی بس پر خودکش حملے کے بعد 26 مارچ 2024 کو سکیورٹی اہلکار جائے وقوعہ کا جائزہ لے رہے ہیں (اے ایف پی)

26 مارچ کو خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی کو قراقرم کی مرکزی شاہراہ پر ضلع شانگلہ کے قریب داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینیئروں کی گاڑیوں کے قافلے سے ٹکرا دیا، جس کے نتیجے میں پانچ چینی انجینیئروں اور ان کے ڈرائیور کی موت ہو گئی۔ 

بیجنگ نے اسلام آباد پر زور دیا ہے کہ وہ اس حملے کی انکوائری کرتے ہوئے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے اور چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔

یہ حملہ بلوچ علیحدگی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے 20 مارچ کو گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کمپلیکس میں داخل ہونے کی ناکام کوشش کے بعد ہوا۔ جی پی اے کمپلیکس سٹریٹجک لحاظ سے گوادر کا گیٹ وے ہے۔ اس بندرگاہ میں چینی شہریوں اور انجینیئرز کی رہائش گاہیں ہیں۔

ایک ہفتے کے دوران پاکستان میں چینی مفادات پر یہ دوسرا بڑا حملہ تھا۔ گوادر پورٹ تین ہزار کلومیٹر طویل چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کا آخری پوائنٹ ہے، جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کا مرکز ہے۔

سی پیک چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ سے شروع ہوتے ہوئے پاکستان کے گلگت بلتستان کے علاقے سے گزرتا ہے اور اس منصوبہ میں ریلوے لائنز، سڑکیں اور توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔

2018 سے بی ایل اے کے خودکش سکواڈ، مجید بریگیڈ پاکستان میں چین کے اقتصادی مفادات اور انجینئرز کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے حوالے سے سرفہرست رہا ہے۔

پاکستان میں چین کے خلاف دو حملوں کے علاوہ دیگر تمام بڑے دہشت گرد حملے بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے کیے۔

2018 میں دالبندین میں ایک بس اور کراچی میں چینی قونصل خانے پر بم دھماکے، 2019 میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پر حملہ، 2020 میں پاکستان سٹاک ایکسچینج اور 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس سینٹر پر حملہ بی ایل اے نے کیے۔

دیگر دو حملے جہادی عسکریت پسندوں نے کیے، لیکن انہوں نے ردعمل کے خوف سے ان کی قبولیت کا دعویٰ نہیں کیا۔

درحقیقت ٹی ٹی پی نے 2021 میں کوئٹہ سرینا ہوٹل بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی لیکن پاکستان میں اس وقت کے چینی سفیر نونگ رونگ کی موقعے پر موجودگی کے بارے میں علم ہونے کے بعد وہ اپنے دعوے سے پیچھے ہٹ گئے۔

اسی طرح 2021 میں خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینیئرز کی بس پر خودکش حملے کی ذمہ داری کسی دہشت گرد گروپ نے قبول نہیں کی تھی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹی ٹی پی کی تردید کے باوجود پاکستان نے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ حملے کا الزام ٹی ٹی پی پر لگایا تھا۔

حالیہ حملے میں ایک بار پھر اسی پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینیئرز کو نشانہ بنایا گیا۔ جولائی 2023 میں پاکستانی حکومت نے منصوبے کی ’فول پروف‘ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان آرمی، پنجاب رینجرز، گلگت بلتستان سکاؤٹس، پولیس اور لیویز فورس کے اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

حالیہ حملہ نجی چینی سکیورٹی کمپنیوں کو چینی شہریوں اور پاکستان میں منصوبوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کی اجازت دینے کے چینی مطالبے کو مزید مضبوط کر سکتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب وفاقی حکومت معاشی چیلچز سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف سمیت دیگر دوست ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے اور سی پیک اب دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے جس میں خصوصی اقتصادی زونز کا مرحلہ وار افتتاح کیا جا رہا ہے اور معیشت کی بحالی کے لیے مختلف شعبوں میں منصوبہ کاری کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جا رہی ہے ایسی صورت حال میں اس طرح کے حملے نئی حکومت کی مشکلات کو بڑھا سکتے ہیں۔
پاکستان کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف اگلے ہفتے چین کا دورہ کرنے والے ہیں اور موجودہ صورت حال میں ان حملوں کے سبب توجہ اقتصادی منصوبوں سے ہٹ کر چینی منصوبوں اور شہریوں کی حفاظت کی طرف متوجہ کر سکتا ہے ۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچ علیحدگی پسند چین کو ایک نوآبادیاتی طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں جس نے پاکستانی ریاست کے ساتھ مل کر ان کی معاشی محرومیوں کو مزید بڑھایا ہے۔

بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کا موقف ہے کہ سی پیک جیسے منصوبے انہیں اپنے ہی صوبے میں اقلیت میں بدل سکتے ہیں۔

بلوچستان معدنیات سے مالا مال ہونے اور رقبے کے لحاظ سے  پاکستان کا 44 فیصد ہونے کے باوجود کم آبادی والا سب سے پسماندہ اور غریب ترین صوبہ ہے۔

بلوچ علیحدگی پسندوں کا موقف ہے کہ سی پیک کے ترقیاتی منصوبوں کی خارجی نوعیت نے ان کی سماجی و اقتصادی محرومیوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔

اگرچہ سی پیک کو پاکستانی حکومت گیم چینجر کے طور پر پیش کر رہی ہے لیکن سی پیک بلوچستان میں کوئی  تبدیلی نہیں لا سکی۔

مثال کے طور پر ضلع گوادر، جہاں بندرگاہ واقع ہے، پینے کے صاف پانی، صحت کی بنیادی سہولیات اور سڑکوں کے بنیادی نظام سے محروم ہے۔

یہاں بجلی پڑوسی ملک ایران سے درآمد کی جاتی ہے اور فروری میں موسلادھار بارشوں کی وجہ سے سیلاب نے گوادر کے ناقص انفراسٹرکچر کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا۔

بلوچستان میں سی پیک کے ادراک اور حقیقت کی تفریق سے بلوچ علیحدگی پسندوں نے شکایات کا آزالہ نہ کرنے سے فائدہ اٹھا کر بھرتی کرنے، فنڈ اکٹھا کرنے اور پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملا ہے۔

جہادی گروپوں کا غیر اعلانیہ طور پر چینی شہریوں اور مفادات کو نشانہ بنانا اور بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے حملوں کے سبب پاکستان کی نئی حکومت کو بیجنگ کو نئے پراجیکٹس شروع کرنے پر راضی کرنا مشکل ہو گا۔

بلوچوں کے حقیقی مسائل کا ازالہ کیے بغیر اور افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ ٹی ٹی پی کے چیلنج کو حل کیے بغیر سکیورٹی کی صورت حال میں بہتری کا امکان نہیں۔

مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X: @basitresearcher.

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر