آنتوں کے کینسر کی تشخیص نمونے کے بجائے تھری ڈی سکین سے ممکن

پوزیٹرون ایمیشن ٹوموگرافی (پی ای ٹی) امیجنگ پوری آنت کی جانچ اور جسم میں موجود رسولی کا مطالعہ کرنے کے قابل بنا سکتی ہے بجائے اس کے کہ رسولی کے ٹشوز نکال کر ان کا ٹیسٹ کیا جائے۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف واشنگٹن کی لیبارٹری میں کووڈ 19 کی ویکسین پرکام کرتے ہوئے ہیلتھ ورکر (فائل فوٹو: اےا یف پی)

سرطان کے مرض کی تشخیص کے لیے آپریشن کر کے رسولی کا نمونہ حاصل کرنا ماضی کا قصہ بن سکتا ہے کیونکہ سائنس دانوں نے اس ضمن میں پیش رفت کرتے ہوئے تھری ڈی سکین کا طریقہ تلاش کیا ہے، جس کی مدد سے آنتوں کے سرطان کے جائزے اور سرطان کی تشخیص میں مدد ملے گی۔

اس وقت سرطان کی تشخیص کے لیے جو طریقہ کار اپنا جا رہا ہے، اس میں صحت کے لیے متعدد خطرات موجود ہیں، مثال کے طور پر انفیکشن ہو سکتا ہے جب کہ مریض کی آنت میں موجود مواد کی شناخت کی صلاحیت محدود ہے۔

کینسر ریسرچ یو کے سے منسلک گلاسگو سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کی تشخیص کے لیے بایوپسی کے بجائے ڈیجیٹل امیجنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پوزیٹرون ایمیشن ٹوموگرافی (پی ای ٹی) امیجنگ پوری آنت کی جانچ اور جسم میں موجود رسولی کا مطالعہ کرنے کے قابل بنا سکتی ہے، بجائے اس کے کہ رسولی کے ٹشوز نکال کر ان کا ٹیسٹ کیا جائے۔

کینسر ریسرچ یوکے سکاٹ لینڈ انسٹی ٹیوٹ اور گلاسگو یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیوڈ لیوس، جنہوں نے اس ضمن میں تحقیق کی قیادت کی، نے کہا: ’درست دوا کینسر کی تشخیص اور علاج میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے، تاہم اس کی کامیابی کے لیے درست، معلوماتی اور مریض دوست تشخیصی تکنیک کی تیاری اہم ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’پی ای ٹی امیجنگ امید افزا متبادل ہے جس میں پورے حصے میں کینسر کو جانچنے کی صلاحیت ہے، جس سے ہمیں رسولیوں کو مزید تفصیل کے ساتھ جانچنے کا موقع ملتا ہے اگر وہ مسلسل بڑھ رہی ہوں۔‘

پی ای ٹی سکین جسم کے اندرونی حصے کی تین جہتی تصویر بناتے ہیں اور محققین کا ماننا ہے کہ علاج کے دوران متعدد مرتبہ سکین کرنے سے کینسر کی زیادہ مؤثر طریقے سے جانچ میں مدد مل سکتی ہے۔

کسی مخصوص مریض کے علاج کو ہدف بنانے کے اس طریقہ کار کو درست دوا کے طور پر جانا جاتا ہے، جو آنکولوجی کا فروغ پاتا ہوا شعبہ ہے۔

کینسر ریسرچ یوکے کے مطابق سکاٹ لینڈ میں سالانہ تقریباً چار ہزار افراد میں آنتوں کے سرطان کی تشخیص ہوتی ہے اور ہر سال اس بیماری میں مبتلا ہو کر تقریباً 1800 افراد جان سے جاتے ہیں۔

تحقیقی ٹیم نے پی ای ٹی امیجنگ کا استعمال کرتے ہوئے رسولی کی مختلف خصوصیات کی شناخت کے لیے آنتوں کے کینسر کے بارے میں موجود جینیاتی معلومات کا استعمال کیا۔

وہ جینز کی بنیاد پر چوہوں میں آنتوں کے سرطان کی متعدد مختلف اقسام دریافت کرنے میں بھی کامیاب رہے۔

کینسر ریسرچ یوکے میں تحقیق کی ڈائریکٹر ڈاکٹر کیتھرین ایلیٹ کے مطابق: ’کینسر ریسرچ یوکے اسکاٹ لینڈ انسٹی ٹیوٹ اور گلاسگو یونیورسٹی کی ٹیم کے یہ نتائج آنتوں کے سرطان کی تشخیص اور نگرانی کے ہمارے طریقہ کار میں انقلاب لانے کا شاندار موقع فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح سرجری کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور مریضوں کے لیے نتائج میں بہتری آتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پی ای ٹی امیجنگ اس مرض کی تشخص کے لیے ہمارے مستقبل کے طریقہ کار میں بہت اہم آلہ ہے، جو سکاٹ لینڈ میں بہت سے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس