اب جب کہ موسم بہار آ چکا ہے، برطانیہ میں موسم گرما کے سیاح پرندے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ سمندری عقاب پہلے ہی اپنے گھونسلوں میں واپس آ چکے ہیں، بھورے رنگ کی چڑیاں اپنے گھر بنانے کے لیے گیت گا رہی ہے اور سمندری طوطے بھی برطانوی جزائر کے اردگرد اپنی افزائش نسل والی جگہوں پر پہنچ چکے ہیں۔
کئی صدیاں پہلے لوگوں کا خیال تھا کہ ابابیلیں سردیاں تالابوں اور جھیلوں کی تہہ میں یا چاند پر سو کر گزارتی ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ یہ بےتکی سی بات ہے۔
اب ہم جانتے ہیں کہ جانور اپنی اور اپنی نسل کی بقا کے لیے ہجرت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہجرت سے انہیں خوراک اور ساتھی تلاش کرنے یا شکاریوں سے بچنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
اگرچہ ہم صرف پرندوں کی ایک ملک سے دوسرے ملک نقل مکانی کو ہجرت کے طور پر لیتے ہیں لیکن اصل میں بہت سے جانور بھی ایسے ہیں جو نقل مکانی کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر افریقہ کا جانور ولڈربیسٹ ایک دائرے میں نقل مکانی کرتا ہے اور خشک موسم کے دوران تازہ گھاس کی تلاش میں بڑی تعداد میں افریقی میدانوں میں نقلِ مکانی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمپ بیک وہیل اپنی افزائش نسل کے لیے گرم پانیوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔
تاہم جب بات سفر کی طوالت کی بات آتی ہے تو یہ ریکارڈ پرندوں ہی کے پاس ہے۔ اس ضمن میں بنا رکے سب سے لمبے سفر کا ریکارڈ مرغ باراں نامی پرندے کے پاس ہے۔ اس نسل کا ایک پرندہ الاسکا سے نیوزی لینڈ تک بغیر کسی وقفے کے تقریباً دس دن تک مسلسل اڑتا رہا اور اس دوران 12 ہزار دو سو کلومیٹر کا سفر طے کیا۔
لیکن لمبی اڑان کا اصل چیمپیئن آرکٹک ٹرن ہے، جو ہر سال قطبِ شمالی سے قطب جنوبی تک 35 ہزار کلومیٹر کا دو طرفہ سفر کرتا ہے۔ اس بہت طویل نقل مکانی کا مطلب یہ ہے کہ یہ پرندہ مسلسل موسم گرما میں رہتا ہے۔ یہ اپنے عالمی سفر کے دوران موریطانیہ، گھانا اور جنوبی افریقہ سمیت کئی ممالک میں رکتا ہے۔
پرندے اپنا راستہ کیسے تلاش کرتے ہیں؟
ہجرت بہت مشکل کام ہے۔ پرندوں کو اپنی پرواز کے دوران طاقت اور اپنے سفر کے دوران خود کو زندہ رکھنے کے لیے بہت زیادہ چربی کی ضرورت ہوتی ہے۔ راستہ بھول جانے کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں، لہٰذا پرندوں میں ناقابل یقین حد تک نیوی گیشن مہارت ہوتی ہے جو انہیں مختصر اور محفوظ ترین راستوں سے اڑانے میں مدد کرتی ہے۔
کچھ اقسام کے پرندوں میں نقل مکانی کرنے کی پیدائشی اور موروثی صلاحیت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی نسل بڑھانے کے لیے آزادانہ طور پر دوسرے علاقوں میں منتقل ہو سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر کوئل کی پرورش اس کے والدین نہیں کرتے کیونکہ مادہ کوئل بالکل مختلف نسل کے پرندوں سے تعلق رکھنے والے گھونسلے میں انڈے دیتی ہے۔ اس کے باوجود ایک نوجوان کوئل یورپ سے افریقہ تک سفر کر سکتی ہے، اور ایک موروثی ’اندرونی جی پی ایس‘ کا استعمال کرتے ہوئے دوبارہ واپس آ جاتی ہے۔
لیکن کیسپیئن ٹرن جیسے پرندوں کی کچھ اقسام جو شمالی یورپ میں اپنی افزائش نسل کی جگہ سے افریقہ میں موسم سرما کے مقام تک طویل فاصلے تک نقل مکانی کرتی ہیں، ان کی وراثت میں ہجرت کرنے والی عادات بہت کم ہیں۔
زیادہ تر انہیں ان کے والدین کی طرف سے سکھایا جاتا ہے، جسے’ثقافتی وراثت‘ یا سماجی تعلیم بھی کہا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ نوجوان سمندری ابابیل (Caspian Tern) اپنے والد سے ہجرت کا راستہ سیکھتے نظر آتے ہیں۔ یہ والدین نقلِ مکانی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بچوں کی تربیت بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ سفر کے وہ انہیں رکنے کے لیے مناسب مقامات اور ایسی جگہیں بھی دکھاتا ہے جہاں سے مچھلیاں کھا کر توانائی توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
لیکن پرندے کچھ ایسے قدرتی اشاروں کا استعمال بھی کرتے ہیں، چاہے وہ جینیاتی طور پر وراثت میں ملے ہوں یا سماجی طور پر۔ مثال کے طور پر ساحلوں کی شکل یا سورج یا ستاروں کا مقام، یا اپنے گھونسلے کی بو تاکہ انہیں دنیا بھر میں اپنے راستے پر چلنے میں مدد ملے۔
کچھ پرندے، جیسے کہ گھریلو کبوتر، سفر کرتے وقت قدرتی مقناطیسی نقشے کا استعمال بھی کرتے ہیں۔
برطانیہ کے موسم گرما کے سیاح پرندے
بائیولوگرز (Biologger) کی ترقی کے بعد پرندوں کی نقل مکانی کے بارے کے ہمارے علم میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ یہ معلومات جمع کرنے والے چھوٹے ڈیجیٹل آلات ہیں جو پرندوں میں لگائے جاتے ہیں۔ ان کی مدد سے ہم کسی ایک پرندے کے مقام، رفتار، رکنے کی جگہ اور ان کی نقل مکانی کے کا وقت معلوم کر سکتے ہیں۔
ایسا ہی ایک مطالعہ کوئل کی ٹریکنگ کاپروجیکٹ ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2022 کے آغاز سے بہت ساری کوئلیں وسطی افریقہ سے روانہ ہوئیں۔ ہر ایک نے الگ الگ سینکڑوں کلومیٹر تک سفر کیا اور اس کے بعد آئیوری کوسٹ اور مراکش سمیت دیگر ممالک میں ایک دو ہفتوں تک قیام کیا۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے سفر کے اگلے مرحلے کو جاری رکھا او تقریباً دس اپریل تک زیادہ تر
فرانس پہنچ گئی تھیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ یہ نقل مکانی کرنے والی کوئلیں بہت جلد برطانیہ میں اپنی افزائش نسل مقام پر واپس آ جائیں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ اکیلی نہیں ہیں۔ بہت سے پرندے موسم گرما میں افزائش نسل کے لیے طویل فاصلہ طے کر کے برطانیہ آتے ہیں۔
مثال کے طور پر چھوٹی چڑیا سردیوں میں وسطی افریقہ میں بھی ہوتی ہے، لیکن فروری کے اواخر سے اگست کے وسط تک برطانیہ میں واپس آگئی ہے، جبکہ شکرا، ڈریگن فلائی کا شکاری، سردیوں میں جنوبی افریقہ میں اور اپریل کے آخر سے اکتوبر تک برطانیہ میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ برطانیہ کے موسم گرما کے مہینوں میں دن کی روشنی کے طویل اوقات اور خوراک کی کثرت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اگر آپ افزائش نسل کے لیے آنے والوں اور دیگر مستقل پرندوں جیسا کہ چڑیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو ہم ذیل میں کچھ تجاویز دے رہے ہیں۔
پرندوں کو میوے، بیج اور گھریلو بچی ہوئی اشیا جیساکہ پیسٹری، پھل یا پنیر کھلانے سے انہیں خوراک آسانی سے مل جائے گی۔
لیکن کچھ اقسام کے پرندے کیڑوں پر انحصار کرتے ہیں۔ لہٰذا اپنے باغیچوں میں حیاتیاتی تنوع کو بڑھانا، جنگلی میدان بنا کر، یا مئی میں گھاس نہ کاٹنا بھی بہت فائدہ ہو گا۔
یہ مت بھولیں کہ پرندوں کو بھی پینے اور نہانے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا پرندوں کو نہانے کے لیے ایک چھوٹا سا تالاب بھی کافی ہو گا۔ آپ واپس آنے والے پرندوں کے لیے گھونسلے والے ڈبے بھی لگا سکتے ہیں۔ خاص طور پر شہری علاقوں میں جہاں چھوٹے پرندوں پرورش کے لیے قدرتی گھونسلے کی کمی ہوتی ہے۔
پرندوں کی آواز سے جاگنا، چڑیوں سمیت ہمارے موسم گرما کے سیاح پرندوں کا شکریہ۔ جو ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے باعث مسرت بنتے ہیں۔ ہمیں اس سفر کو نہیں بھولنا چاہیے جو انہوں نے ہمارے ساحلوں تک پہنچنے کے لیے کیا ہے، اور افزائش نسل کے موسم کو یقینی بنانے کے لیے ہم جو کچھ کر سکتے ہیں کریں۔
یہ تحریر پہلے ’دا کنورسیشن‘ پر شائع ہوئی تھی اور یہاں اس کا ترجمہ اجازت لے کر شائع کیا جا رہا ہے۔ اس کی مصنفہ لوئس جینٹل برطانیہ کی ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی میں جنگلی حیات کے تحفظ کے شعبے میں لیکچرار ہیں۔