یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
پاکستان تحریکِ انصاف کا لانگ مارچ اسلام آباد کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے۔ معلوم نہیں یہ کپتان کے آنے کا اعلان ہے یا ان کے جانے کا۔
الجھنیں ہجوم کرتی ہیں توغالب یاد آتے ہیں: ’تیرا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی۔‘
ابنِ انشا کے ایک دوست کا محبت میں دل ٹوٹ گیا تو انہوں نے اسے مشورہ دیا کہ لوگ اگر اداسی کا سبب پوچھیں تو اصل بات بتانے کی بجائے کہہ دینا کہ ’یوں ہی ماحول کی گرانی ہے‘ اور ’دن خزاں کے ذرا اداس سے ہیں۔‘
سوال یہ ہے عمران کے سامنے اس لانگ مارچ کے کچھ حقیقی اہداف موجود ہیں یا وہ بھی ماحول کی گرانی اور خزاں کی اداسی کی وجہ سے سڑکوں پر نکل آئے ہیں؟ اس ساری مشق کی وجوہات کیا ہیں؟ سیاسی یا ابنِ انشا والی؟
عمران خان جب اقتدار سے الگ ہوئے تو انہوں نے قوم کے سامنے ایک بیانیہ رکھا۔ یہ بیانیہ اقتدار کی کشمکش کا نہیں تھا۔ یہ قومی غیرت کا بیانیہ تھا۔ پارلیمان کے اندر عدم اعتماد کو امریکی سازش کہا گیا۔
رجز کی صورت سوال پوچھا جانے لگا: کیا ہم تمہارے غلام ہیں؟ میر جعفر اور میر صادق کے طعنے ولیمے کے چاولوں کی طرح تقسیم کیے گئے۔ امریکی سازش کا بیانیہ بنا کر اس سے ’کھیلا‘ گیا۔ قومی غیرت کی نیلامی پر نوحے کہے گئے۔
عوام کو پکارا گیا کہ گھروں سے نکلو، یہ اب سیاست کا معاملہ نہیں یہ ملک و قوم کی آزادی اور خود مختاری کے تحفظ کا معرکہ ہے۔ چنانچہ اس مارچ کا نام ’حقیقی آزادی مارچ‘ رکھا گیا۔
یہ الگ بات کہ حقیقی آزادی مارچ ابھی پوٹھوہار نہیں پہنچا تھا کہ اس قوم کو نوید مسرت دے دی گئی کہ امریکی سازش اور مداخلت والا معاملہ بہت پیچھے رہ گیا ہے ہمارا کنٹینر اس سے آگے نکل آیا ہے۔
اور راستے میں ہمیں معلوم ہوا کہ امریکہ تو سپر پاور ہے اور ملک و قوم کے مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے اچھے تعلقات رکھے جائیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر کنٹینر آگے نکل آیا ہے اور سائفر بیانیہ پیچھے رہ گیا ہے تو اس مارچ کا نام ’حقیقی آزادی مارچ‘ کس نسبت سے ہے؟
اس بیانیے کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ حکومت چوروں پر مشتمل ہے اس لیے یہ ایک ایسا آرمی چیف لانا چاہتی ہے جو اس سے اس کی کرپشن پر سوال نہ کرے۔
آرمی چیف کی میرٹ پر تعیناتی کے مطالبے کیے گئے۔ ایک معمول کی تعیناتی کو ملک و قوم کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر قومی بیانیے کو ہیجان سے بھر دیا گیا۔
تاہم لانگ مارچ ابھی روات سے پیچھے ہی تھا کہ کہا گیا نیا آرمی چیف جو بھی ہو گا ہمیں منظور ہے۔
ادارے میں معمول کی ایک تعیناتی کو پہلی بار بازیچہ اطفال بنایا اور پھر مزے سے یوٹرن لے لیا۔
امریکہ کے خلاف ایک غیر ضروری مہم کھڑی کر کے پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے اور پھر بڑی ہی سادگی سے اس بیانیے کو جی ٹی روڈ پر ہی پھینک کر ایک اور یوٹرن لے لیا۔
سوال پھر وہی ہے کہ ایسے میں اس لانگ مارچ کا مقصد کیا ہے اور یہ ’حقیقی آزادی مارچ‘ کس کو کس سے حقیقی آزادی دلانے آ رہا ہے؟
سیاست امکانات کاکھیل ہے، جو حکمت، صبر اور بقائے باہمی کے اصولوں پر کھیلا جاتا ہے۔ یہ A سے شروع ہو کر Z تک جانے کا نام ہے۔
تحریک انصاف کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ یہ شروع ہی Z سے ہوئی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ Z سے آگے کچھ نہیں ہوتا چنانچہ پھر یہ بند گلی میں داخل ہو جاتی ہے، پھنس جاتی ہے اور اسے بار بار یوٹرن لینے پڑتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی بحران اس وقت بھی عمران خان سے لپٹ چکا ہے۔ اقتدار سے الگ ہو کر انہوں نے جتنے بھی اہم سیاسی فیصلے کیے، بادی النظر میں مشاورت کے بغیر کیے۔
یہاں تک کہ لانگ مارچ کی تاریخ تک دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ شاہ محمود قریشی کو بھی کچھ معلوم نہیں، یہ بس صرف مجھے معلوم ہے کہ کب اور کیا کرنا ہے۔ اب نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
Z سے کھیل شروع کیا جائے توپیش رفت نہیں پسپائی ہوتی ہے۔ آپ A سے چل کر XY تک پہنچ جائیں تو یہ غیر معمولی کامیابی ہوتی ہے لیکن آپ Z سے شروع ہو کر XY پر جا پہنچیں تو اسے پسپائی کہتے ہیں۔
حقیقی آزادی مارچ شروع ہوتا ہے اور پہلے مرحلے میں کسی کو بتائے بغیر منتشر کر دیا جاتا ہے۔
دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے تو راولپنڈی پہنچنے سے پہلے ہی دو اہم معاملات سے یو ٹرن لے لیا جاتا ہے۔
اب اسلام آباد میں ریلی کے لیے اجازت تو مل چکی ہے لیکن مبلغ تین درجن شرائط کے ساتھ۔ ان 35 شرائط میں سے کسی ایک کو پامال کریں گے تو اجازت نامہ منسوخ ہو جائے گا یا عدالت نوٹس لے لی گی۔ اور اگر ان شرائط پر عمل کریں گے تو حکومت کی بلا سے ایک مہینہ بیٹھے رہیں۔
لاہور سے چلے اور اسلام آباد پہنچ گئے۔ ابھی تک مطالبہ ایک بھی نہیں مانا گیا۔ ایف آئی آر تک حسب منشا درج نہیں ہو سکی، حکومت بھی اپنی ہے مگر بے بس حکومت سے الگ ہونا بھی گوارا نہیں۔
بات اب مطالبات منوانے کی بجائے ’فیس سیونگ‘ کی تلاش کی طرف بڑھتی نظر آ رہی ہے۔
سیاسی درجہ حرارت کو انتہائی درجے پر پہنچا کر اور اپنے وسائل اور توانائیاں اس مہم میں جھونک کر اگر ایک قومی سیاسی جماعت کوئی مطالبہ بھی نہ منوا سکے تو یہ اس کی قیادت کی بصیرت پر ایک بہت بڑا سوال ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کپتان آ رہا ہے یا جا رہا ہے۔
ایک مقبول قومی سیاسی جماعت جس کے ساتھ بہت سارے نوجوانوں کا رومان لپٹا ہے غیر ضروری مہم جوئی کی وجہ سے برف کی صورت دھوپ میں رکھی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔