20 افغانی سے سجاوٹی اشیا کا کاروبار شروع کرنے والی فاطمہ

کابل کی فاطمہ خستہ حال اشیا کو پہننے اور گھریلو سجاوٹ کے فن پاروں میں بدل دیتی ہیں۔

قیمتی خام مال سے دنیا میں کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے، کمال یہ ہے کہ سستی چیزوں بلکہ کاٹھ کباڑ سے نفیس اور بہتر چیزیں بنائی جائیں۔

فاطمہ ناصری نے 20 افغانی سے ایک ایسا ہی کام شروع کیا۔

کابل کی رہنے والی فاطمہ سکول سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گھر میں ڈیکوریشن پیسز بناتی ہیں۔

وہ اپنے کام میں عموماً پھینکی گئی ڈسپوزایبل اشیا استعمال کرتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس ہنر کو انہوں نے سکول میں سیکھا۔ ’یہ ضروری نہیں کہ ہر نوجوان کو اعلیٰ تعلیم یا پھر نوکری کرنے کے یکساں مواقع ملیں، ہمیں اپنے کام کا راستہ خود ہموار کرنا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سکول میں ہم نے اپنے مضمون میں صرف کپڑا بُننا سیکھا اور کسی حد تک کاروبار کو سمجھا تھا، لیکن سکول کے ساتھ ساتھ ہم اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور گھریلو استعمال کی چیزیں جیسے کپڑے، میزپوش، چوڑیاں، بالیاں یا دستانوں سمیت ڈیکوریشن پیس بنانے شروع کیے۔‘

فاطمہ کے مطابق ان چیزوں کا سب خام مال کابل میں دستیاب ہے البتہ ڈیزائن کی خاطر وہ ان میں کچھ تبدیلیاں لاتے ہیں۔ ’ہم نے پھینکےہوئے ڈسپوزایبل گلاسوں سے بھی ایک گلدان بنایا۔‘

انہوں نے مزید کہا ’ہم اپنی بنائی ہوئی چیزوں کو مختلف نمائشوں میں بھیجتے تھے لیکن طالبان کی حکومت آنے کے بعد اب وہ بہت کم منعقد ہوتی ہیں۔  

’ابھی تک کسی شخص، ادارے یا حکومت نے ہماری کوئی مدد نہیں کی، الٹا ہم کئی غیر ضروری پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

’ہم نے 30 سے زیادہ شاگردوں کو تربیت دی ہے، جن کی اکثریت مجبوری کی حالت میں یہاں آئی لیکن اب وہ اچھے کاریگر ہیں اور اپنا اپنا کام چلا رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل