اقوام متحدہ کے وفد کے دورہ افغانستان کے بعد عالمی ادارے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ خواتین کے حقوق پر کچھ طالبان عہدیداروں نے کھلے ذہن کا مظاہرہ کیا تاہم کچھ نے واضح طور پر مخالفت کی ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق چند روز قبل ایک خاتون عہدیدار کی قیادت میں اقوام متحدہ کے وفد نے افغانستان کے چار روزہ دورے کے دوران طالبان انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن ختم کرے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے اس دورے کے حوالے سے جاری ایک بیان میں کہا کہ ’کچھ طالبان حکام نے خواتین کے حقوق کی بحالی کے لیے زیادہ کھلے ذہن کا مظاہرہ کیا لیکن دیگر نے واضح طور پر اس کی مخالفت کی۔‘
اقوام متحدہ کی ٹیم نے دارالحکومت کابل اور جنوبی شہر قندھار میں طالبان حکام سے ملاقاتیں کیں تاہم عالمی ادارے نے طالبان کے کسی عہدیدار کا نام ظاہر نہیں کیا۔
ان ملاقاتوں میں 20 سال کی جنگ کے بعد امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد سے طالبان کی قائم حکومت کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں پر عائد پابندیوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔
عالمی ادارے کے نائب ترجمان فرحان حق نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل آمنہ محمد کی سربراہی میں ٹیم نے پایا کہ طالبان کے کچھ عہدیداروں نے تعاون کا مظاہرہ کیا اور انہیں پیش رفت کے کچھ آثار دکھائی دیے۔
ترجمان کے مطابق ’اہم بات یہ ہے کہ ان (طالبان) عہدیداروں کے ساتھ مفاہمت کی جائے جو ڈٹے رہنے والے حکام کے مقابلے میں ان کی بات سننے کو تیار تھے۔‘
فرحان حق نے اس بات پر زور دیا کہ طالبان کے درمیان اختیار کے حوالے سے مختلف سوچ ہے اور یہ کہ اقوام متحدہ کی ٹیم کوشش کرے گی کہ وہ ’ان اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے مل کر کام کریں جو ہم چاہتے ہیں اور جس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو مکمل طور پر معاشرے کا دوبارہ حصہ بنانا اور ان کے حقوق واپس لوٹانا ہے۔‘
نائجیریا کی کابینہ کی سابقہ وزیر آمنہ محمد کے ساتھ اس دورے میں صنفی مساوات اور خواتین کے حقوق کو فروغ دینے والی اقوام متحدہ کی خواتین کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باہوس اور اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل برائے سیاسی امور خالد خیاری بھی شامل تھے۔
طالبان 2021 میں حکومت کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے اقتدار کی طرح آہستہ آہستہ اسلامی قانون یا شریعت کی اپنی سخت تشریح کو دوبارہ نافذ کرتے ہوئے لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے اسکول جانے سے روک دیا اور خواتین کے ملازمتوں، عوامی مقامات اور جم جانے پر پابندی لگا دی۔
گذشتہ سال دسمبر میں طالبان نے امدادی تنظیموں میں بھی خواتین کی شمولیت پر پابندی لگا دی تھی جس نے امدادی کارروائیوں کو مفلوج کر دیا جو لاکھوں افغانوں کو زندہ رکھنے میں مدد کر رہے تھے۔
طالبان کی یہ پابندی ملک بھر میں انسانی خدمات کے لیے خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ جنگ زدہ ملک میں امدادی تنظیموں کے لیے کام کرنے والی ہزاروں خواتین کو آمدنی سے ہاتھ دھونا پڑ رہے ہیں جنہیں اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کی اشد ضرورت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم صحت کے شعبے سمیت کچھ شعبوں میں خواتین کو محدود کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
فرحان حق نے اس بارے میں کہا: ’خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے جو کچھ ہم نے دیکھا ہے وہ پیچھے کی جانب ہٹتا ہوا ایک بہت بڑا قدم ہے۔ ہم مزید کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم اس محاذ کو جاری رکھیں گے۔‘
آمنہ محمد نے اس بارے میں کہا کہ ’طالبان کے لیے ان کا یہ پیغام بہت واضح تھا کہ یہ پابندیاں افغان خواتین اور لڑکیوں کو ایک ایسے مستقبل میں دھکیل رہی ہیں جو انہیں اپنے گھروں میں قید کرتی ہیں، ان کے حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور کمیونٹیز کو ان کی خدمات سے محروم کرتی ہیں۔‘
انہوں نے زور دیا کہ انسانی امداد کی فراہمی اس اصول پر مبنی ہے جس میں خواتین سمیت تمام امدادی کارکنوں کے لیے بلا روک ٹوک اور محفوظ رسائی کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول: ’ہماری اجتماعی خواہش ہے کہ افغانستان ایک خوشحال ملک ہو جو خود اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پرامن ہو اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہو لیکن اس وقت افغانستان ایک خوفناک انسانی بحران اور موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ کرہ ارض پر سب سے زیادہ کمزور ممالک میں سے ایک ہونے کے باوجود خود کو الگ تھلگ کر رہا ہے۔‘
اس دورے کے دوران عالمی ادارے کے وفد نے مغربی شہر ہرات کا دورہ بھی کیا اور اس دوران آمنہ محمد کی قیادت میں وفد نے تینوں شہروں میں انسانی ہمدردی کے کارکنوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور خواتین سے بھی ملاقاتیں بھی کیں۔
اقوام متحدہ کی خواتین کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باہوس نے ایک بیان میں کہا: ’افغان خواتین نے اپنی ہمت اور عوامی زندگی میں واپس لوٹنے کے عزم کا اظہار کیا، وہ اپنے حقوق کی وکالت اور جدوجہد جاری رکھیں گی اور ایسا کرنے میں ان کا ساتھ دینا ہمارا فرض ہے۔‘
ان کے بقول: ’افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خواتین کے حقوق کے لیے سنگین بحران ہے اور بین الاقوامی برادری کے لیے جاگنے کا وقت ہے۔‘
انہوں نے زور دے کر کہا کہ طالبان حکام یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے کئی دہائیوں کی پیش رفت کو کتنی تیزی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
کابل پہنچنے سے قبل اس وفد کے ارکان نے مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کے علاوہ انڈونیشیا، پاکستان اور ترکی کا دورہ بھی کیا تھا۔
انہوں نے اسلامی کانفرنس کی 57 ملکی تنظیم او آئی سی، اسلامی ترقیاتی بینک اور انقرہ اور اسلام آباد میں افغان خواتین کے گروپوں کے ساتھ ساتھ دوحہ میں مقیم افغانستان کے سفیروں اور خصوصی ایلچی کے ایک گروپ سے ملاقاتیں کیں۔