یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں نے اخبار میں کالم لکھنا شروع نہیں کیا تھا مگر میں کالم نگاروں سے بہت مرعوب تھا۔ یہ انٹرنیٹ سے پہلے کا وقت تھا، اس وقت جن لوگوں کے کالم اخبار میں شائع ہوا کرتے تھے ان میں سے اکثر نہایت فخر سے لکھا کرتے تھے کہ ان کے فلاں کالم کے ردعمل میں اخبار کے دفتر میں اتنی زیادہ تعداد میں خطوط موصول ہوئے کہ مدیر کو بوری میں بند کر کے کالم نگار کے گھر بھجوانے پڑے۔
ہم اس وقت خاصے معصوم ہوا کرتے تھے (اب بھی ہیں، آزمائش شرط ہے)، ان باتوں کو پڑھ کر یقین کر لیا کرتے تھے، ویسے بھی انسان کاغذ پر چھپی ہوئی بات کو خواہ مخواہ مستند سمجھ لیتا ہے چاہے اس کاغذ پر بنگالی جادوگر کا اشتہار ہی کیوں نہ چھپا ہو!
خیر، مجھے اس بات میں کوئی شک نہ ہوتا اگر یہ بلند بانگ دعویٰ کرنے والوں میں وہ لکھاری شامل نہ ہوتے جن کا کالم پڑھنا ایک اذیت ہوتی تھی اور اسی لیے میں نے یہ اذیت ناک کام انجام دینے والے کو پانچ سو روپے دینے کا اعلان کر رکھا تھا۔ یہ انعامی رقم آج کی تاریخ تک کوئی نہیں جیت سکا۔
پھر وقت بدلا اور ای میل کا دور آ گیا، انٹرنیٹ اب بھی خال خال ہی تھا، لیکن پھر ہمارے ان محبوب کالم نگاروں نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ ان کے گذشتہ کالم نے اندرون و بیرون ملک اس قدر تہلکہ مچایا اور قارئین کی ای میلز اتنی بڑی تعداد میں موصول ہوئیں کہ ان کا ای میل اکاؤنٹ ہی choke ہوگیا، بولے تو اس کا دَم گھُٹ گیا۔
آپ میں سے جن لوگوں کو اس بات میں غلو کا شائبہ ہو رہا ہو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ باتیں اس خاکسار نے خود کالموں میں پڑھی ہیں۔ اب ایک دودھ پیتا بچہ بھی جانتا ہے کہ اگر آپ کو ایک دن میں دس ہزار ای میلز بھی موصول ہو جائیں تو ان سے اکاؤنٹ نہیں ’بھرسکتا‘ کیونکہ ای میل اکاؤنٹ میں کئی گیگا بائٹ کی گنجائش ہوتی ہے لیکن کوئی بات نہیں، جو مزاجِ یار میں آئے !
جب سے سوشل میڈیا وارد ہوا ہے تب سے ہمارے محبوب کالم نگاروں نے اپنے کالموں کی شہرت کے دعوے کرنے ترک کر دیے ہیں، اور اس کی وجہ نہایت سادہ ہے۔ سوشل میڈیا نے ہر بندے کو بے نقاب کر دیا ہے، کون کتنا پڑھا جاتا ہے، کس شخص کے کتنے پیروکار (بولے تو ’فالوورز) ہیں، سب کھلی کتاب کی طرح سامنے ہے۔
اب کوئی یہ نہیں کہتا کہ میرے پرستاروں کی ای میلز کی وجہ سےمیرا اکاؤنٹ ہی بھر گیا، کیونکہ پرستاروں کی رائے اب سوشل میڈیا پر آ جاتی ہے اور پتا چل جاتا ہے کہ بندہ کتنے پانی میں ہے۔
البتہ کچھ کائیاں قسم کے لوگ اب بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنی بڑائی بیان کرنے کے نئے طریقے ایجاد کر لیے ہیں۔ مثلاً میں جب گھر سے نکلا تو سامنے سے ایک جلوس آ رہا تھا، ان لوگوں کے ہاتھ میں لاٹھیاں تھیں، انہوں نے میری گاڑی روک لی، اس سے پہلے کہ وہ میری گاڑی کو آگ لگا دیتے، جلوس میں موجود کئی افراد نے مجھے پہچان لیا اور پھر آناً فاناً میری گاڑی کو نکل جانے کا راستہ دے دیا۔
بعد میں کسی حاسد نے یہ افواہ اڑا دی کہ مجھے پہچاننے والے دراصل وہ لوگ تھے جن کے میں نے پیسے دینے تھے، ’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسرا طریقہ، اکثر جب لوگ مجھے کسی کانفرنس میں اظہار خیال کے لیے مدعو کرتے ہیں تو وہاں مجھ سے ایک ہی سوال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل کیا ہے، لیکن گذشتہ روز عجیب بات ہوئی، میں ایک کھانے پر مدعو تھا، وہاں سب لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور پوچھنے لگے کہ آپ گوناں گوں مسائل پر لکھتے ہیں، قوم کی نبض پر آپ کا ہاتھ ہے، یہ بتائیں کہ خالص دیسی گھی کہاں سے ملتا ہے!
ایک تیسرا طریقہ بھی ہے اور اِس طریقے کا موجد آپ کا یہ خادم ہے۔ گذشتہ دنوں خاکسار نے کالم لکھا کہ جدید مغربی دنیا میں جنس کی تخصیص فقط مرد اور عورت کے طور پر نہیں کی جاتی بلکہ اب سولہ مختلف طریقوں سے آپ اپنی جنس کا اظہار کرسکتے ہیں۔ حاصل کالم یہ تھا کہ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو نہ جانے بات کہاں جا کر تھمے گی جبکہ کسی بھی شخص کو دیکھ کر آسانی سے بتایا جا سکتا ہے کہ مرد ہے یا عورت۔
اللہ کی شان دیکھیں، جس دن یہ کالم شائع ہوا، اس سے اگلے روز برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے یہی باتیں دہرا دیں۔ اب اِس تیسرے طریقے کو بروئے کار لاتے ہوئے میرا ارادہ ایک اور کالم لکھنے کا ہے جس میں بتاؤں گا کہ کیسے دنیا کے لیڈر میرے کالموں کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اس سے رہنمائی حاصل کر کے اپنی تقریروں کو چار چاند لگاتے ہیں۔
میں یہ بھی بتاؤں گا کہ پاکستان میں برطانوی سفارت خانہ اس کام پر مامور ہے کہ وہ میرے کالموں کا انگریزی ترجمہ کر کے روزانہ رشی سونک کو ای میل کرے۔ کون مائی کا لال ہوگا جو اس کی تردید کرنے کی جرات کرے گا!
کہتے ہیں کہ برطانوی دور حکومت میں مولانا طفر علی خان نے انگریز سرکار کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے چتاؤنی دی تھی کہ اگر حکومت نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہ کی تو انہیں مجبوراً تاج برطانیہ کے خلاف زمیندار میں اداریہ لکھنا پڑے گا۔
میرا خیال ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ میں بھی اب برطانوی حکومت کو ’چتاؤنی‘ دوں کہ اگر اس نے انڈیا نواز پالیسیاں ترک نہ کیں تو مجبوراً مجھے رشی سونک کے خلاف کالم لکھنا پڑے گا۔ پھر نہ کہنا کہ خبر نہیں ہوئی!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔