آج کے دور کے دیو جانس کلبی

پاکستان کے موجودہ حالات میں دیو جانس کلبی نہیں صرف کلبی پیدا ہوں گے جو طاقت ور کے پیچھے دُم ہلاتے پھریں گے اور اِس بات کو اپنی دانائی جانیں گے۔ زوال کی نشانیاں یہی ہوتی ہیں۔

ایتھنز کے دیو جانس کلبی کا کہنا تھا کہ ’میں نرم دل لوگوں کو پیار کرتا ہوں جب کہ لالچی پر بھونکتا ہوں اور بدمعاشوں کو کاٹتا ہوں‘ ( اے ایف پی/ لڈووِک مارِین)

قدیم یونان میں ایک سنکی قسم کا بزرگ گزرا ہے، جس کا نام دیو جانس کلبی تھا۔ اُس کا ماننا تھا کہ انسان کو سادہ اور قدرتی انداز میں زندگی گزارنا چاہیے۔ جیسے کتے گزارتے ہیں۔

اسی وجہ سے ’کلبی‘ اُس کے نام کا حصہ بن گیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ ’میں نرم دل لوگوں کو پیار کرتا ہوں جب کہ لالچی پر بھونکتا ہوں اور بدمعاشوں کو کاٹتا ہوں۔‘

یہ شخص شہر کے لوگوں کے ساتھ عجیب و غریب حرکتیں کرتا، اُن پر جملے کستا اور بعض اوقات انہیں اشتعال بھی دلاتا مگر چونکہ اُس کی باتوں میں گہرائی تھی، اِس لیے لوگ اسے سنکی قسم کا فلسفی سمجھتے تھے۔

ایک مرتبہ سکندر اعظم نے دیو جانس سے پوچھا کہ وہ کوڑا کرکٹ کیوں چھان رہا ہے، جس پر اُس نے جواب دیا: ’میں تمہارے باپ کی ہڈیاں تلاش کر رہا ہوں لیکن اُن میں اور اُس کے غلاموں کی ہڈیوں میں کوئی فرق نہیں کر پا رہا۔‘

دیو جانس کلبی کو افلاطون سے شدید چِڑ تھی۔ وہ کہتا تھا کہ افلاطون کا طرز زندگی فلسفی کا نہیں بلکہ کسی نواب جیسا ہے۔ اُس کے گھر میں قیمتی قالین ہیں اور وہ پُر تعیش دعوتیں اُڑاتا ہے۔

وہ اکثر افلاطون کے لیکچر کے دوران خلل ڈالتا، شور مچاتا اور کوشش کرتا کہ کسی طرح افلاطون کا دھیان بٹ جائے اور اُس کے شاگرد اُس پر ہنسیں، لیکن افلاطون بھی آخر افلاطون تھا۔

ایک دن دیو جانس نے اُس کے قیمتی قالین پر قدم رکھ کر کہا: ’میں افلاطون کے غرور کو روندنے لگا ہوں۔‘ جس پر افلاطون نے جواب دیا ’ٹھیک کہہ رہے ہو دیو جانس، ایک اور طرح کے غرور کے ساتھ۔‘

دیو جانس دن دیہاڑے ایتھنز کی گلیوں میں لالٹین لے کر گھوما کرتا، لوگ پوچھتے کہ کیا تلاش کر رہے ہو تو کہتا ’مجھے آدمی کی تلاش ہے۔‘

وہ اکثر برہنہ بھی پھرتا اور گھر میں رہنے کی بجائے کسی گلی کے کونے کھدرے میں کتے کی طرح پڑا رہتا۔

دیو جانس کلبی سے منسوب واقعات کی حقیقت جاننا ممکن نہیں، اِن میں سے زیادہ تر قصے کہانیاں ہی معلوم ہوتے ہیں۔

مثلاً یہ بات دل کو نہیں لگتی کہ ایتھنز میں کوئی شخص اُٹھ کر سکندر اعظم کو یہ کہہ سکتا تھا کہ میں کوڑے میں سے تمہارے باپ کی ہڈیاں تلاش کر رہا ہوں۔

لیکن دیو جانس سے کوئی بعید نہیں کہ اُس نے یہ بات کہہ دی ہو کیونکہ وہ تو پہلے ہی خود کو گلی کا کتا کہتا تھا، لہٰذا سکندر اعظم نے اسے سزا دے کر کیا کر لینا تھا۔

اسی طرح ارسطو اور سکندر اعظم کا مشہور مکالمہ بھی دیو جانس کلبی کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے، جس میں سکندر اعظم پوچھتا ہے کہ میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں تو وہ دیو جانس/ارسطو جواب دیتا ہے کہ ’تم سورج کی روشنی کے سامنے کھڑے ہو، فی الحال پرے ہٹ جاؤ۔‘

قطع نظر اِس بات سے کہ یہ واقعات من گھڑت ہیں یا سچے، اِن میں دانائی بہت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دیو جانس کلبی نے کچھ کتابیں بھی لکھی تھیں مگر وہ ہم تک نہیں پہنچ سکیں۔

اُس کے بارے میں زیادہ تر قصے اور حکایتیں ہی مشہور ہیں، جن میں سے تاریخ دانوں نے حکمت تلاش کرکے اسے فلسفی کا درجہ دے دیا۔

میری رائے میں وہ فلسفی تو شاید نہیں تھا البتہ آپ سے اپنے زمانے کا سنکی اور دانا شخص کہہ سکتے ہیں۔

افلاطون سے اُس کی نوک جھونک سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اُس سے حسد کرتا تھا کیونکہ سقراط کے بعد افلاطون کو یونان کا سب سے دانا شخص تصور کیا جاتا تھا۔

ایتھنز کے  نوجوان اُس کے دلدادہ تھے اور اُس کے حلقے میں شامل ہونے کو باعث افتخار سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ افلاطون کی درس گاہ پورے یونان میں مشہور تھی اور اُس کے فلسفے کا ڈنکا ہر جانب بجتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب دیوجانس کلبی بیچارہ راندہ درگاہ تھا۔ اُس میں حکمت و دانش تو تھی مگر اسے ایتھنز کے نوجوانوں سے وہ لِفٹ نہ مل سکی جو افلاطون کے حصے میں آئی۔

اسی لیے وہ افلاطون پر جملے کستا اور اُس پر امرا کی طرح زندگی گزارنے کا الزام لگاتا۔ لیکن یہ سب قیاس آرائیاں ہیں، ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ اُس وقت دیو جانس کلبی اور افلاطون کے درمیان رقابت کی وجہ کیا تھی۔

ممکن ہے کہ دیوجانس خلوص نیت سے اُس پر تنقید کرتا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُس کی کتابوں میں افلاطون کے مقابلے میں زیادہ بہتر فلسفہ بیان کیا گیا ہو مگر وہ فلسفہ ہم تک نہیں پہنچا لہٰذا اب ہم صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ وہ افلاطون سے حسد کرتا تھا۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ وہ بھی کیا زمانہ تھا جس میں سقراط، افلاطون، ارسطو اور دیوجانس جیسے لوگ ایتھنز میں رہتے تھے۔

اِن لوگوں کی رقابتیں بھی علمی اور فلسفیانہ نوعیت کی تھیں، اِن کی ہر بات سے دانائی جھلکتی تھی اور ہر جملہ دانش کے موتی بکھیرتا تھا اور ایک ہم ہیں، ایسے زمانے میں زندہ ہیں جہاں بات کرنے کو  ترستی ہے زباں اپنی۔

اول تو یہاں کوئی علمی بات ہو نہیں سکتی اور اگر کرنے کی کوشش کی جائے تو سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں کسی قانون کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی۔

جس انداز اور رفتار سے آج کل کڑے قوانین بنائے جا رہے ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ٹریفک کے سپاہی پر تنقید کرنا بھی قابل دست اندازی جرم کہلائے گا۔

اِن حالات میں یہاں کوئی دیو جانس کلبی نہیں صرف کلبی پیدا ہوں گے جو طاقت ور کے پیچھے دُم ہلاتے پھریں گے اور اِس بات کو اپنی دانائی جانیں گے۔ زوال کی نشانیاں یہی ہوتی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ