نڈھال رہنا، ملازمت کی بارے میں عدم اطمینان اور پیشہ ورانہ کارکردگی میں کمی جیسے احساسات سے کئی لوگ آشنا ہوں گے۔ یہ پیداواری صلاحیت کے جنون اور خود ساختہ ’ہلچل‘ پر غیرمعمولی توجہ دینے والے معاشروں میں تھکاوٹ (برن آوٹ) کی علامات ہیں۔
ایک امریکی سروے کے مطابق 67 فیصد لوگ کام سے جڑے تناؤ کی تصدیق کرتے ہیں، جو زیادہ حیران کن نہیں۔
برن آؤٹ اب تک قابل تشخیص بیماری نہیں تھی لیکن اب سب تبدیل ہو رہا ہے۔ رواں ہفتے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اعلان کیا ہے کہ تھکن یا برن آؤٹ بیماریوں کی گیارہویں عالمی کلاسیفیکیشن میں ایک دائمی کیفیت قرار دی جائے گی۔
بہت سے لوگوں کو خوشی ہوگی کہ ان کے کام سے متعلق صحت کو سنجیدگی سے لیا جارہا ہے بالخصوص خواتین کے لیے، جن میں دفاتر میں غیرمناسب اختیارات، کام اور ذاتی زندگی کے توازن میں دشواری اور فیصلہ سازی کے کم مواقع اکثر جذباتی تناؤ اور پیشہ ورانہ عدم اطمینان کا سبب بنتی ہیں۔
اس کے علاوہ عورتیں دفاتر اور گھروں میں جذباتی دباؤ کا اضافی شکار رہتی ہیں جو ان کے ذہنی کوفت کا سبب بنتی ہیں۔
یہ پریشان کن نظام بہت سے جائزوں میں دردناک طور پر سامنے آتا ہے جس سے معلوم ہوا کہ خواتین میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے اور اس کے اثرات دفاتر سے باہر تک پھیلے ہوئے ہیں۔
پیشہ ورانہ ترقی میں رکاوٹ کے ساتھ ساتھ برن آؤٹ نیند کی کمی، تناؤ اور کئی دیگر جسمانی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔
اس وبا کو تسلیم کرنا ایک چھوٹی سی کامیابی ہے لیکن عورتوں کے لیے قابل ذکر ہے۔ جب بات خواتین کی صحت کے بارے میں ہوتی ہے تو معلومات کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ زیادہ تر طبی تحقیق مردوں پر کی جاتی ہے اور مرد اور خواتین کے درمیان فرق کو سمجھنے کے لیے کم کوششیں کی گئی ہیں۔
خواتین اکثر ان علامات کو بتانے سے کتراتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی بیماریوں کی تشخیص میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔
میں نے اپنی ذہنی حالت کے بارے میں لکھا اور اپنی نوکری سے ہاتھ دھویا۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے، اس سے جڑے صحت کے مسائل جاننا ضروری ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ عورتیں اب اپنی ذہنی حالت کی تشخیص کے لیے ڈاکٹروں پر یلغار کریں گی۔
برن آؤٹ کا عورتوں کی جمسانی و ذہنی صحت کے لیے تسلیم کیا جانا اہم قدم ہوگا۔