بھارت میں جماعت اسلامی ہند سے وابستہ اسلامی سکالر اور مصنف ڈاکٹر محی الدین غازی نے ملک کی تمام مسجدوں سے ہندی زبان میں اذان دینے کی تجویز پیش کی ہے، جس پر ہونے والی بحث ایک قومی بحث کی شکل اختیار کر رہی ہے۔
ان کی طرف سے یہ تجویز ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب بھارت میں سخت گیر ہندو اور ہندو تنظیموں کو مساجد میں اذان دینے پر اور تعلیمی اداروں میں مسلمان لڑکیوں کے حجاب پہننے پر اعتراض ہے، نیز کسی حملے کی مزاحمت کرنے پر مسلمانوں کی جائیدادوں پر سرکار کی طرف سے بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔
جہاں کچھ لوگوں اور علما کا کہنا ہے کہ ہندی زبان میں اذان دینے یا اذان کا ترجمہ پیش کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے وہیں اکثر کا خیال یہ ہے کہ آج اذان ہندی میں دیں گے تو کل نماز اور قرآن ہندی میں پڑھنے پر مجبور کیا جائے گا۔
اس بارے میں دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام مولانا سید احمد بخاری نے کہا ہے کہ یہ تجویز ہر طرح سے ناقابلِ عمل ہے۔
ڈاکٹر غازی کی تجویز ہے کیا؟
ڈاکٹر محی الدین غازی جماعت اسلامی ہند کے ماہانہ میگزین ’زندگیِ نو‘ کے مدیر، اس کی تصنیفی اکیڈمی کے سیکریٹری اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں۔
انہوں نے چند روز قبل اپنے ایک بیان میں نہ صرف ہندی زبان میں اذان دینے کی تجویز بلکہ اس زبان میں دی جانے والی مجوزہ اذان کا رسم الخط بھی جاری کیا۔
’میں جانتا ہوں کہ آپ کے لیے یہ بالکل نامانوس آئیڈیا ہے۔ کیوں کہ آپ نے نہ کبھی اسے سنا ہے اور نہ دیکھا ہے۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ آپ فورًا اسے رد کر دیں۔ لیکن تھوڑی دیر کے لیے اس منظر کا تصور کریں، جو میں نے تصور کی آنکھوں سے دیکھا ہے اور آپ کو دکھانا چاہتا ہوں۔ ہو سکتا ہے وہ منظر آپ کو بھی اچھا لگے۔ آپ تصور کریں کہ ملک کی تمام مسجدوں سے یہ آواز بلند ہو رہی ہے اور ملک کے سبھی لوگ اسے سن رہے ہیں:
ایشور بڑا مہان ہے (چار بار)
میں گواہی دیتا ہوں کہ ایشور کے سوا کسی کی پوجا نہیں ہونی چاہیے (دو بار)
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ایشور کے دوت ہیں (دو بار)
آؤ ایشور کی پوجا کریں (دو بار)
آؤ سپھلتا کی اور (دو بار)
ایشور بڑا مہان ہے (دو بار)
ایشور کے سوا کوئی پوجنیہ نہیں (ایک بار)‘
ڈاکٹر غازی کے مطابق اگر مسجدوں میں ’یہ اذان‘ دی جاتی ہے تو یہ انسانوں کے نام ایک عظیم اور واضح پیغام ہو گا۔
’کیا یہ زبردست آئیڈیا نہیں ہے کہ ملک میں رہنے والے تمام لوگ روزانہ پانچ بار ان خدائی پیغامات کو سنیں، ان کا مطلب سمجھیں اور ان کے بارے میں دن رات سوچیں؟
’کیا یہ زبردست آئیڈیا نہیں ہے کہ اسلام کی دعوت بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اپنی اصلی صورت میں ملک کے ہر فرد تک پہنچ جائے۔ نہ صرف پہنچ جائے بلکہ روزانہ بار بار پہنچے؟
’یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اس ملک میں ہزار سال سے روزانہ پانچ بار اذانیں دی جا رہی ہیں، کوئی 70 سال سے ہمارے ملک میں لاؤڈ سپیکر سے اذانیں دی جا رہی ہیں، لیکن ابھی تک یہاں کے عوام کو اذان کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ سب کی بات چھوڑیں، خود مسلم عوام میں بہتوں کو اس کا مطلب معلوم نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر غازی کے نزدیک مسجدوں سے ہندی اور علاقائی زبان میں اذان دینے کے تین بڑے فائدے ہیں۔
’پہلا مسلمانوں کو اذان کا مطلب سمجھ میں آئے گا اور ان کے ایمان کی بار بار تجدید ہو گی۔ دوسرا تمام لوگوں تک اسلام کی دعوت روزانہ بار بار پہنچے گی۔ اور تیسرا اذان کے خلاف شرپسندوں کی ساری کوششیں دم توڑ دیں گی۔
’میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ عربی اذان کی جگہ ہندی اذان دی جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ عام طور سے اہل علم نےعربی میں اذان دینے کو ضروری قرار دیا ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ عربی اذان دی جائے اور اس کے ساتھ ہندی اذان بھی سنائی جائے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے ہندی میں اذان سنا دی جائے اور بعد میں عربی میں اذان دے دی جائے۔ پہلے ہندی میں اس لیے تاکہ سب لوگ متوجہ ہو کر سنیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عربی میں اذان بغیر لاؤڈ سپیکر کے دی جائے اور ہندی میں لاؤڈ سپیکر سے دی جائے۔
’یہ تجویز حالات کے دباؤ کو قبول کرنے والی نہیں بلکہ حالات کو تبدیل کرنے والی ہے۔ مجھے اس پر پورا اطمینان ہے کہ اگر ہندی ریاستوں میں ہندی زبان میں اور غیر ہندی ریاستوں میں وہاں کی علاقائی زبانوں میں اذانیں سنانے کا رواج قائم ہو گیا تو ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے سازگار ماحول بن سکتا ہے اور شرپسندوں کی کوششیں خاک میں مل سکتی ہیں۔‘
لفظ ’ایشور‘ کیوں؟
ڈاکٹر محی الدین غازی کی طرف سے پبلک ڈومین میں رکھے جانے والی ہندی اذان پر کچھ لوگ ان کی تائید کرتے نظر آ رہے ہیں، مگر اکثریت ناراض اور برہم ہے۔ بہتوں کو اللہ کے لیے ’ایشور‘ اور عبادت کے لیے ’پوجا‘ کا لفظ استعمال کرنے پر اعتراض ہے۔
انہوں نے اللہ اور ایشور کے معاملے پر ایک وضاحتی بیان میں کہا: ’بہت سے لوگوں کو اس بات سے الجھن ہو رہی ہے کہ اللہ کو ایشور کیوں کہا جائے۔
’ان کی معلومات کے لیے عرض یہ کرنا ہے کہ ہندی میں تیار ہونے والے اسلامی لٹریچر میں اللہ کے لیے ایشور کا لفظ قدیم زمانے سے استعمال ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر مولانا مودودی کی کتاب ’بناؤ اور بگاڑ‘ کا ترجمہ آزادی سے پہلے ہوا تھا، اس میں بھی اللہ کے لیے ایشور کا لفظ اختیار کیا گیا ہے۔
’جو لوگ ہندی میں دعوتی لٹریچر تیار کرتے اور گفتگو کرتے ہیں وہ ان الفاظ سے اچھی طرح مانوس ہیں۔ جو اس میدان سے دور یا لاتعلق رہے ہیں انھیں الجھن ہونا فطری بات ہے۔‘
شدید تنقید بھی، تائید بھی
دہلی کی تاریخی جامع مسجد کے شاہی امام مولانا سید احمد بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہندی زبان‘ میں اذان دینے کی تجویز ناقابل عمل ہے۔
’یہ بیوقوفی کی بات ہے۔ یہ وہ تجویز ہے جو قابل عمل نہیں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ہندی یا کسی اور زبان میں اذان دیں؟ ذمہ دار اشخاص کو ایسی کوئی بھی تجویز پیش کرنے سے پہلے بہت سوچنا چاہیے۔ جن لوگوں کی اپنی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہوتی ہے وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جہاں تک اذان کو سمجھنے یا نہ سمجھنے کی بات ہے ہر مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اذان کا مقصد کیا ہے۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ اکبر کا مطلب ہے ’اللہ سب سے بڑا ہے‘، حی علی الفلاح کا مطلب ہے ’آؤ فلاح کی طرف‘ اور حی علی الصلاۃ کا مطلب ہے ’آؤ نماز کی طرف۔‘
مولانا احمد بخاری نے بتایا کہ جہاں تک اذان پر کچھ لوگوں کے اعتراض کا سوال ہے تو آج انہیں اذان پر اعتراض ہے تو کل ہماری کسی دوسری عبادت پر ہو گا۔
’آج ہم اذان ہندی میں دیں گے تو کل مطالبہ آئے گا کہ نماز اور قرآن بھی ہندی میں پڑھیے۔ ایسی تجویزیں مسئلے کا حل نہیں۔ اعتراضات رکنے والے نہیں ہیں، کیوں کہ انہوں نے سوچ لیا ہے کہ ہمیں مسلمانوں کے لیے مسائل کھڑے کرنے ہیں۔ انہیں کبھی حجاب پر اعتراض ہے تو کبھی کسی دوسری چیز پر۔‘
جامع مسجد کے شاہی امام کا کہنا ہے کہ بھارت میں اس وقت کے جو حالات ہیں ان میں مسلمانوں کو حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
’مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے میں میڈیا ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ اگر مسلمان ٹی وی مباحثوں میں حصہ لینا چھوڑ دیں گے تو ماحول کے بہتر ہونے کے بہت امکانات ہیں۔ ٹی وی پر مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے لیے وہ لوگ جاتے ہیں جنہیں عقل ہے نہ سمجھ۔ وہ حصہ لیتے ہیں تو انہیں گالیاں کھانی پڑتی ہیں اور ان کی بے عزتی ہوتی ہے۔ وہ پھر بھی جاتے ہیں اس وجہ سے کیوں کہ انہیں ایک پروگرام کے ایک ہزار یا 15 سو روپے ملتے ہیں۔ ان 15 سو روپے کے لیے انہوں نے مسلمانوں کو سڑکوں پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
’میں موجودہ حالات پر کہوں گا کہ تشدد اور نفرت کسی بھی لحاظ سے ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ یہ نہ صرف ملک بلکہ خود حکومت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔‘
دہلی کی دوسری بڑی تاریخی مسجد ’فتح پوری مسجد‘ کے شاہی امام ڈاکٹر مفتی مکرم احمد نقش بندی نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کے دوران ’ہندی زبان‘ میں اذان دینے کی تجویز کی شدید مخالفت کی۔
’یہ تو بیوقوفی کی باتیں ہیں۔ انہیں (ڈاکٹر محی الدین غازی کو) لوگوں کو اذان کا مطلب سمجھانا ہے تو شوق سے ہندی میں پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کریں۔ یا مطلب سمجھانے کے لیے دوسرے طریقے استعمال کریں۔ مگر ہندی میں اذان نہیں دی جا سکتی۔‘
بھارت کے معروف عالم دین اور ماہر فلکیات مولانا ثمیر الدین قاسمی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں ڈاکٹر محی الدین غازی کی تجویز پر کہا ہے کہ اہل وطن کا یہ مسئلہ نہیں کہ انہیں اذان سمجھ میں آتی ہے یا نہیں بلکہ وہ اذان ہی بند کرنا چاہتے ہیں۔
’یہ ان (سخت گیر ہندوؤں) کی نیت ہے۔ ان کو اس سے غرض نہیں آپ اذان ہندی میں پڑھوائیں یا بنگالی میں۔ بدقسمتی سے وقفے وقفے سے کچھ لوگ ایسے شوشے چھوڑتے ہیں جن کی وجہ سے اسلام کو بدنام اور مسلمانوں کو ذلیل ہونا پڑتا ہے۔ آپ کی یہ کوشش (تجویز) ان میں سے ایک ہے۔
’اذان شعار ہے جس کو بدلا نہیں جا سکتا۔ یعنی نماز کی طرف بلاوے کی ایک پہچان ہے۔ اذان ایک سنت ہے اور سنت کو اس کے طریقے سے ہی انجام دینا ہے۔ یعنی پیغمبر اسلام نے جس طرح اذان سکھائی اسی طرح ادا کرنی ہو گی۔‘
معروف بھارتی صحافی، محقق اور ماہر اسلامیات ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عربی کو چھوڑ کر کسی دوسری زبان میں اذان دینا بلاشبہ عجیب لگتا ہے لیکن فقہی اعتبار سے اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
’آغازِ اسلام میں فارسی میں بھی نماز اور قرآن پڑھا جاتا تھا۔ اذان تو اللہ کی بارگاہ کی طرف بلاوا ہے لہٰذا اس کو کسی دوسری زبان پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
’بدقسمتی سے اکثر مسلمانوں کو معلوم نہیں کہ اذان میں کیا بولا جا رہا ہے۔ یعنی وہ اذان کے جملوں کے معنی و مطلب سے ناواقف ہیں۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو تو لگتا ہے کہ شاید اکبر بادشاہ کے بارے میں کچھ بولا جا رہا ہے۔‘
بھارتی مسلمانوں کی ایک تنظیم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈاکٹر محی الدین غازی کے بیان کا غلط مطلب نکالا جا رہا ہے۔
’اسلام کی آمد سے ہی اذان کی عربی زبان میں ادائیگی پر اتفاق پایا جا رہا ہے۔ محی الدین غازی کی تجویز ہے کہ اذان کے مطلب کو ہندی میں بھی سمجھایا جائے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس کو تنازعے کا موضوع نہ بنایا جائے۔‘
جماعت اسلامی ہند کے شعبہ اسلامی معاشرہ کے مرکزی سیکریٹری ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے بھارتی نیوز پورٹل ’آواز دی وائس‘ میں اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر محی الدین غازی کی تجویز سے پیدا شدہ تنازعے پر لکھا ہے: ’بعض احباب کا مطالبہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند کے امیر اس مسئلے پر بیان دیں اور جماعت کا موقف واضح کریں۔ میں اس کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
’جماعت اسلامی اس موضوع پر پوری امت کے ساتھ ہے کہ اذان حسبِ معمول عربی زبان ہی میں ہوتی رہنی چاہیے۔ البتہ اذان کا مفہوم کیا ہے، اور اس میں کس طرح توحید اور رسالت کا پیغام سمو دیا گیا ہے، اسے مختلف ذرائع سے برادرانِ وطن تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
’جماعت اسلامی اس کی کوشش کر رہی ہے، چناں چہ ہندی زبان میں مولانا نسیم احمد غازی نے ایک کتابچہ ’اذان اور نماز کیا ہے؟‘ کے عنوان سے لکھا ہے، جسے بڑے پیمانے پر عام کیا جا رہا ہے اور جماعت کے زیرِ اہتمام پورے ملک میں ’مسجد پریچے‘ کے عنوان سے پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں، جن میں آبادی کے غیر مسلموں کو مسجد میں مدعو کر کے اذان اور نماز کا مفہوم سمجھایا جا رہا ہے۔ اس کے اچھے اثرات سامنے آ رہے ہیں۔‘
بھارت میں اذان پر تنازع
واضح رہے کہ بھارت میں بعض سخت گیر ہندو تنظیموں نے رمضان کے مہینے میں مسجدوں سے لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اذان دینے پر ایک بڑا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔
کرناٹک اور مہاراشٹر سمیت کئی ریاستوں میں بجرنگ دل، سری رام سینا اور مہاراشٹر نو نرمان سینا نے دھمکی دی ہے کہ اگر لاؤڈ سپیکروں پر اذان بند نہیں کی گئی تو ان کے کارکن ردعمل کے طور پر مساجد کے باہر یا نزدیکی منادر میں اذان کے وقت ہنومان چالیسا، شری راما جیا راما منتر اور اومکار کی دعائیں بجائیں گے۔
بھارت کی بعض فلمی شخصیات کو بھی لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے اذان دینے پر اعتراض ہے۔ 2017 میں معروف گلوکار سونم نگم جبکہ حال ہی میں گلوکارہ انورادھا پوڈوال نے مساجد سے اذان دینے پر اعتراض کیا ہے۔ ان کا اعتراض ہے کہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اذان دینے سے شور پیدا ہوتا ہے جس سے لوگوں کی نیند اور آرام میں خلل پڑتا ہے۔
دوسری زبانوں میں اذان
تاریخ میں ایسے کئی واقعات مل جاتے ہیں جب عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں اذان دی گئی ہو۔
علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں ایک جگہ ذکر کیا ہے کہ اندلس میں بربر حکمرانوں کے دور میں بربر زبان میں اذان دی جاتی تھی۔
سب سے مشہور مثال ترکی کی ہے جب عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد کمال اتاترک کے حکم پر 1932 کے لگ بھگ عربی کی بجائے ترکی زبان میں اذان دی جانے لگی۔
یہ عمل 1950 تک جاری رہا اور بالآخر اسے ختم کر کے دوبارہ عربی اذان نافذ کر دی گئی۔