کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں گدھوں کا ایک ایسا باڑا ہے جہاں محنت مزدوری کے لیے گدھوں کا استعمال کرنے والوں کو تربیت دی جا رہی ہے کہ وہ ان جانوروں کے ساتھ برتاؤ کیسا رکھیں۔
پاکستان میں اب بھی ایسے بہت سے افراد ہیں ایکوائن یعنی گدھے، گھوڑوں اور خچروں کو محنت مزدوری کے لیے استعمال کر کے یومیہ پانچ سو سے 1500 روپے کما کر اپنے گھروں کا چولہا جلاتے ہیں۔
تاہم کثر اوقات ایسے واقعات دیکھے جاتے رہے ہیں کہ ان جانوروں سے ان کے مالکان کا برتاؤ کچھ اچھا نہیں ہوتا۔
اس حوالے سے جانوروں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے مہم کا آغاز کیا ہے جو جانوروں کے مالکان کو ان سے برتاؤ بہتر کرنے کی تربیت دے رہے ہیں۔
دی بروک ایک برطانوی فلاحی تنظٰیم ہے جو ایکوائن پر کام کرتی ہے۔
تنظیم سے منسلک جانوروں کے ڈاکٹر حبیب لغاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گدھے، گھوڑے، خچر وہ جانور ہیں جو روز مرہ کاموں میں استعمال ہوتے ہیں۔ غریب لوگ ان جانوروں کو استعمال میں لاکر روزانہ کی بنیاد پر کماتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم ان جانوروں سے ان لوگوں کے برتاؤ پر کام کرتے ہیں۔ یہ جانور یعنی ایکوائن انتہائی غریب لوگ رکھتے ہیں اور کمائی کے لیے پالتے ہیں۔‘
’اسی لیے یہ ادارہ ان لوگوں اور ان کے جانوروں پر کام کرتا ہے۔ تاکہ ان کے جانور صحت مند ہوں، اچھےطریقے سے کام کر سکیں اور ان کے گھر کا نظام بھی صحیح طریقے سے چل سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم ایکوائن کے مالکان کو پیغام دیتی ہے کہ یہ جانور آپ کے اپنے جانور ہیں۔ یہ جانور سانس بھی لیتے ہیں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ ان پر ظلم نہ کیا جائے، ان کو اچھے طریقے سے سنبھالا جائے، کیونکہ اگر یہ جانور صحیح ہوں گے تو ان کا بھی روزگار چلے گا۔
’پہلے ہم لاعلم تھے‘
ضلع کیماڑی میں واقع مچھر کالونی کے صالح محمد نے ایسے افراد کی تربیت کا بیڑہ اٹھایا ہے تاکہ وہ ان جانوروں کے ساتھ اپنا برتاؤ بہتر کر سکیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے 50 سالہ محمد صالح نے بتایا کہ ’پہلے ہم نہیں جانتے تھے، جانوروں کو دھوپ میں کھڑا کرتے تھے، پتھروں پر ہی باندھ دیتے تھے۔‘
’پہلے ہم لاعلم تھے۔ ہم گدھوں پر ظلم کیا کرتے تھے، گدھا گاڑی پنکچر ہونے کے باوجود دوڑاتے رہتے تھے اور گدھوں پر ضرورت سے زیادہ وزن لادا جاتا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتے ہیں کہ اس تنظیم (دی بروک) کی مہم کے بعد ’ہمیں سمجھ آئی کہ پہلے ہمارے جانور بیمار رہتے تھے مگر اب ماشا اللہ ہمارے جانور بالکل صحیح ہیں۔‘
’ہم اب گدھوں پر ظلم نہیں کرتے ہیں۔ اب ہم گدھا گاڑی کو بھی صحیح اور صاف ستھرا رکھتے ہیں۔‘
صالح محمد کا کہنا ہے کہ فلاحی تنظیم ان کے پاس گذشتہ 16، 17 سالوں سے آرہی تھی۔ ’ہم جانتے نہیں تھے اور گدھوں کے ناک یہ سوچ کر کاٹ دیتے تھے کہ یہ کھل کر سانس لیں، مگر معلوم ہوا کہ یہ تو ہم بہت ظلم کرتے تھے۔‘
’میں نے یہاں شیڈ بنایا جہاں گدھوں کو خشک جگہ میں بھاندتے ہیں۔ خشک جگہ میں کھڑا کر کے خدمت کرتے ہیں، جو زخمی ہوتا ہے اس کا علاج بھی کرتا ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ دی بروک نامی فلاحی تنظیم نے سکھایا کہ جانوروں کو خشک اور سایہ دار جگہ پر رکھا جائے، وزن کم ڈالیں، زیادہ تکلیف نہ دیں۔‘
’اس سب کے بعد اب اللہ کا شکر ہے کہ جانور تھوڑا ادھر ادھر ہو جاتا ہے تو سمجھ آجاتی ہے کہ یا تو یہ بیمار ہے یا اسے کوئی تکلیف ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اب ہمارے جانور بھی خوشحال ہیں۔ سب شیڈ کے نیچے باندھتے ہیں۔ کام بھی لے رہے ہیں اور جانور بیمار بھی نہیں ہو رہے ہیں۔‘