یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
ہمیں برگر بہت پسند ہیں۔ بیف برگر ہمارے پسندیدہ ہیں۔ جب ہم چین آئے تو پتہ چلا کہ چینی بھی برگر بہت شوق سے کھاتے ہیں لیکن وہ والے برگر نہیں جو ہم اور آپ روزانہ اپنے پسندیدہ ریستورانوں سے خرید کر کھاتے ہیں۔
چینی گدھے کے گوشت سے بنے ہوئے برگر کھاتے ہیں۔ یہ برگر ان کے شمالی صوبے ہیبی کی خاص سوغات ہیں۔
چین کے ہر شہر میں اس صوبے کے کھانوں میں ماہر ریستوران اپنے گاہکوں کو فخریہ یہ سوغات کھلاتے ہیں۔
ایسے ریستورانوں کی بیرونی دیواروں پر گدھے کی شبیہ بنی ہوئی ہوتی ہے جو دور سے ہی دیکھنے والوں کو وہاں گدھے کے گوشت کی دستیابی کی اطلاع دیتی ہے۔
چین کے صوبہ ہیبی میں یہ برگر چودھویں صدی سے کھائے جا رہے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اس دور میں صوبہ ہیبی کے شہر باؤ ڈنگ میں تاجروں کے گروہ اپنے سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے گدھوں کا استعمال کرتے تھے۔ کبھی کسی گروہ کو مخالف گروہ کا گمشدہ گدھا ملتا تھا تو وہ اسے ذبح کر کے اس کا گوشت اپنے کھانے میں استعمال کر لیتے تھے۔ وہاں سے چینیوں کو گدھے کا گوشت کھانے کی عادت پڑی۔
چین میں گدھے کے گوشت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جنت میں ڈریگن کا گوشت اور زمین پر گدھے کا گوشت۔
چین میں دو اقسام کے گدھے کے برگر بنتے ہیں۔ پہلی قسم کے برگر بنانے کے لیے گول بن نما بریڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بریڈ کو چینی زبان میں شاؤ بِنگ کہتے ہیں۔
شاؤ بنگ بنانے کے لیے گندھے ہوئے آٹے کو ایک بڑی سی روٹی کی شکل میں بیل کر اس پر گدھے کی چربی پھیلائی جاتی ہے۔ پھر اس روٹی کو بل دیتے ہوئے لپیٹا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی شکل میں کاٹا جاتا ہے۔ پھر ہر ٹکڑے کو ایک بن کی شکل دے کر ایک بڑے سے توے پر پکایا جاتا ہے۔
گدھے کے برگر کی یہ قسم باؤ ڈنگ میں کافی مشہور ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس طرز کا برگر بنانے کے لیے شاؤ بِنگ یا گدھے کی چربی سے بنے ہوئے بن کو ایک طرف سے کاٹا جاتا ہے۔ پھر اس میں بھنے ہوئے گدھے کے گوشت اور ہری مرچ کا گرما گرم آمیزہ بھرا جاتا ہے۔
دوسری قسم کا برگر مستطیل کی شکل میں بنی ہوئی بریڈ سے بنتا ہے۔ اس بریڈ کو چینی زبان میں ہو شاؤ کہتے ہیں۔ یہ بن کی طرح نرم نہیں ہوتی بلکہ پراٹھے کی طرح خستہ اور کراری ہوتی ہے۔
اس بریڈ کو ایک طرف سے کاٹ کر اس میں بھنے ہوئے گدھے کے گوشت، ہری مرچ اور گدھے کے کولیجن کا ٹھنڈا آمیزہ شامل کیا جاتا ہے۔
گدھے کے گوشت کے برگر کی یہ قسم ہی چیان نامی شہر میں کافی مشہور ہے۔
کھانے والے کہتے ہیں کہ گدھے کا گوشت گائے کے گوشت سے نرم اور مزیدار ہوتا ہے۔
ہم نے چین میں رہتے ہوئے گدھے کا گوشت نہیں کھایا، البتہ لاہور میں رہتے ہوئے کیا کچھ کھایا ہے اس بارے میں ہم کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتے۔
کچھ سال پہلے لاہور کے بہت سے ریستورانوں کو گدھے کا گوشت کھلانے پر بند کر دیا گیا تھا۔
ہمیں ان ریستورانوں سے بس ایک شکوہ ہے اگر وہ ہمیں گدھے کا گوشت بتا کر کھلا دیتے تو آج ہم اس کے ذائقے پر اپنی رائے دینے کے قابل ہوتے۔
ایسا دھوکہ چین میں بھی ہوتا ہے۔ ہمیں لاہور میں گدھے کا گوشت دھوکے سے کھلایا جاتا ہے۔ چین میں گدھے کے گوشت کے نام پر دیگر جانوروں کا گوشت کھلانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
ایسے چینی جو بچپن سے گدھے کا گوشت کھاتے آ رہے ہیں وہ اس کا ذائقہ پہچانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے ریستوران گدھے کے گوشت کے نام پر گھوڑے کا گوشت بیچ رہے ہیں۔
یہ تو برگر ہو گیا۔ چینی گدھے کی جلد سے حاصل ہونے والے کولیجن کو روایتی ادویات میں بھی استعمال کرتے ہیں۔
ایسی ہی ایک دوائی کا نام ای چیاؤ ہے۔ چینی اس کا استعمال بہت سی بیماریوں کے علاج کے لیے کرتے ہیں۔ ان میں جسم میں خون کے بہاؤ کو ٹھیک کرنا، نیند کی کمی کو دور کرنا، اور خشک کھانسی کا علاج وغیرہ شامل ہیں۔
چین میں پچھلے کئی برسوں میں اس دوائی کی مانگ میں شدید اضافہ ہوا ہے۔
چین میں گدھے کب کے ناپید ہو چکے ہیں۔ چین دیگر ممالک خصوصاً افریقہ سے گدھے کی جلد اور گوشت درآمد کرتا ہے۔
پاکستان نے بھی ماضی میں چین کو گدھے درآمد کرنے کی پالیسی بنائی تھی۔ اس کے لیے پنجاب میں گدھوں کے فارم بھی بنائے گئے تھے۔
جانے وہاں سے کتنے گدھے یہاں درآمد ہوئے۔ ہمیں یہاں ہماری جنس کا فائدہ حاصل ہے۔ ورنہ لوگ ہمارا شمار بھی ان میں کر لیتے۔