طویل انتظار کے بعد نمائش کے لیے پیش کی جانے والی پاکستانی پنجابی فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ نے ایک لمحے کو بھی مایوس نہیں کیا۔
اس فلم سے جتنی توقعات وابستہ تھیں، یہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کم از کم پاکستانی سینیما کی تاریخ میں آج تک اپنی تکنیک اور پروڈکشن کے اعتبار سے اتنی بڑی فلم نہیں بنی۔ جس معیار اور جس سطح کہ یہ فلم ہے دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کی تیاری میں اتنا طویل عرصہ کیوں لگا۔
اگرچہ اس فلم کی کہانی کا 1979 کی مولا جٹ سے چند مکالموں اور کرداروں کے نام سے زیادہ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، تاہم یہ فلم ہئیت میں اپنی پیش رو سے میلوں آگے ہے۔
’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ آپ کو ایک ایسے تخیلاتی دور میں لے جاتی ہے جسے آپ ماضی میں کہیں بھی رکھ سکتے ہیں۔ فلم میں کوٹ مٹھن کے علاوہ کسی علاقے کا نام نہیں لیا گیا ہے، مگر اس سے کم از کم کہانی کا جغرافیہ معلوم ہو جاتا ہے۔
مولا جٹ کا زمانہ بندوقوں سے پہلے کا ہے، جب لڑائی لاٹھیوں، کلہاڑیوں اور اس قسم کے دیگر ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھی۔
بلال لاشاری نے ان ہتھیاروں اور خاص کر گنڈاسے کا استعمال بہت ہی خوبی سے کیا ہے، ایک ایک سین اور اس کی ہر حرکت کہانی کو آگے بڑھاتی ہے۔
فلم دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ ٹریلر دیکھ کر جتنے بھی اندازے لگائے گئے تھے وہ سب غلط تھے۔ یہ 300 کی طرز کی فلم نہیں ہے اور نہ ہی یہ روم کے گلیڈی ایٹرز کی طرز پر بنائی گئی ہے، یہ باہو بلی کی طرح بھی نہیں ہے۔ پنجاب کی روایتی کہانیوں اور کرداروں کو سامنے رکھ کر ایک فکشن تخلیق کیا گیا ہے اور یہ اسی کا شاہکار ہے۔
فلم کا سیٹ ایک پورے گاؤں کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے اور اس کی ایک ایک گلی، بازار، چوراہا، ڈھابہ سب تخلیق کر کے اس زمانے کے مطابق بنائے گئے۔
بلال لاشاری کی ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ ایک مکمل ایکشن فلم ہے۔ یہ انتقام کے شعلوں میں جلتے ہوئے مولاجٹ کی کہانی ہے، یہ مکھو کی مولا جٹ سے شدید محبت کی کہانی ہے، یہ دارو نٹنی کے غرور کی کہانی ہے، اور یہ نوری نت کی بےچین خونی طبیعت کی کہانی ہے۔
لیکن اس کے باوجود اس کی کہانی بہت سادہ ہے، پنجابی سینیما کو مد نظر رکھتے ہوئے پروڈکشن اور ایکشن سے اسے بڑا بنایا گیا ہے، کہانی میں غیر ضروری موڑ یا طول و عرض بالکل نہیں ہیں۔
انداز ہالی وڈ کا مگر رنگ اور ڈھنگ مکمل طور پر دیسی، نوری نت کی کلہاڑیاں ہوں یا مولا جٹ کا گنڈاسہ، جدید تکنیک کو روایت میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔ اس سے پیشتر لاٹھیوں کی لڑائی میں بھی یہی انداز نمایاں رہا۔
فواد خان بطور مولا جٹ اپنے کردار میں کچھ ایسے ڈھلے کہ فلم دیکھتے ہوئے خیال ہی نہیں آیا کہ یہ وہی ہیں جو ’خوبصورت‘ جیسی فلم میں رومانوی کردار کر چکے ہیں۔ وزن بڑھانے اور گنڈاسہ چلانے سے لےکر مکھو جٹی کے ساتھ رومانوی سین تک فواد خان نے کوئی کسر نہیں رہنے دی۔
فواد اور ماہرہ کے رومانس کو بڑے پردے پر دیکھنے کی خواہش پوری ہو ہی گئی۔
دوسری جانب حمزہ علی عباسی نے پہلی بار ولن کے کردار میں اتر کر یہ بتا دیا کہ وہ کتنے منجھے ہوئے اداکار ہیں۔ نوری نت کا کردار بے چین خونی طبعیت کا ہے، جسے لہو کی پیاس رہتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی وہ اصول پسند بھی ہے، پیچھے سے وار نہیں کرتا، سامنے آ کر لڑتا ہے۔ اگرچہ حمزہ کا کردار فلم کے 40 منٹ کے بعد نمودار ہوتا ہے مگر پھر چھا جاتا ہے اور آخر تک حاوی رہتا ہے۔
ماہرہ خان نے بطور مکھو جٹی، الہڑ لڑکی کا کردار بہت عمدگی سے ادا کیا، پنجابی زبان سے کماحقہ ناواقف ہونے کے باوجود انہوں نے بہترین مکالمے ادا کیے۔ سینیما کے بڑے پردے پر ہیروئین کی شخصیت کا سحر دکھائی دینا چاہیے، یہ کام ماہرہ نے خوب کیا، کردار کا تقاضا تھا کہ ہروقت مولا مولا کرے، وہ انہوں نے کر دیا۔
حمیمہ ملک دارو نتنی کے کردار میں ایک مغرور، سخت دل عورت ہے، جو کسی کی بھی جان اپنے ہاتھوں سے لے لیتی ہے۔
حمیمہ ملک نے اس فلم میں گلیمر کی کمی کو کسی حد تک پورا کر دیا، جس کا کچھ اندازہ ٹریلر سے بھی ہو ہی جاتا ہے۔
ان چار مرکزی کرداروں کے علاوہ علی عظمت، گوہر رشید نے بھی اپنے اپنے کردار بخوبی ادا کیے۔ بابر علی اور ریشم کو ایک ساتھ مختصر وقت کے لیے ہی سہی سینیما میں دیکھ کر اچھا لگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں رجو کا کردار ادا کرنے والی صائمہ بلوچ کا ذکر کرنا ضروری ہو گا جنہیں 80 سے زیادہ خواتین کے آڈیشن کر کے منتخب کیا گیا تھا۔ ان کے چند ہی سین تھے، مگر ایک رقاصہ کے طور پر انہوں نے خود کو منوایا۔
’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی پروڈیوسر عمارہ حکمت ہیں، جو خود پشتون ہیں۔ اس لحاظ سے یہ فلم قومی یگانگت کا بہترین مظہر ہے۔
عمارہ حکمت نے بتایا کہ ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کا سکرین پلے بلال لاشاری نے لکھا ہے جبکہ مکالمے ناصر ادیب کے ہیں، کہانی ناصر ادیب اور بلال لاشاری کی مشترکہ پیشکش ہے۔
پاکستان میں اب تک اتنے بڑے پیمانے کی فلم نہیں بنی، نو سال پہلے اس کے بارے میں سوچا گیا تھا، 2016 کے آخر میں اس پر باقاعدہ کام شروع ہوا اور مئی 2019 میں اس کا کیمرا بند ہوا۔ اسے عید 2020 پر ریلیز کرنے کا ارادہ تھا مگر کرونا کی وجہ سے یہ اب 13 اکتوبر 2022 کو ریلیز ہورہی ہے۔
پانچ سال کی محنت اس فلم میں نظر آتی ہے، ایک ایک سین کہانی سے جڑا ہوا ہے، اب یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی بدولت پاکستانی سینیما اپنے احیا، اور پھر از سر نو احیا کے بعد اب ایک اور نئی سحر دیکھنے جا رہا ہے۔