اداکارہ انعم تنویر پاکستانی ڈراموں اور شارٹ فلم کی دنیا میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے کے بعد اب بڑی سکرین پر جلوہ گر ہونے والی ہیں۔
2011 میں پی ٹی وی کے پروگرام ’دم دی‘ سے میزبانی کا آغاز کرنے کے بعد انعم نے مسلسل ڈراموں میں معاون کرداروں کے ذریعے اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ’میرے درد کو جو زباں ملے‘، ’بے دردی‘،’آخر کب تک‘ شامل ہیں، جن میں ان کی اداکاری کو بے حد سراہا گیا۔
انہوں نے 2017 میں شارٹ فلم ’خالدہ اور والدہ‘ میں کام کیا، اور پھر 2018 میں ’گلاس توڑا بارآنا‘ جیسی آرٹ فلم میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
اس کے بعد ’معصوم سی بھولی بھالی سی (2019)‘، ’ایک اور منافق (2020)‘، ’دکھاوا (2022)‘ اور ’دوسرا چہرا (2022)‘ جیسی شارٹ فلموں میں بھی ان کی اداکاری کو سراہا گیا۔
ان کی نئی فلم اس عید الفطر پر سینیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔
تھرلر فلم میں انعم کا کردار خاص طور پر دلچسپ ہے، کیونکہ وہ ایک ہندو لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہیں، اور وہ زیادہ تر ساڑھی میں ملبوس نظر آئیں گی۔
فلم ’کبیر‘ کے حوالے سے انعم تنویر نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ خصوصی گفتگو کی جس میں انہوں نے بتایا کہ فلم میں انہوں نے منفرد کردار ادا کیا جبکہ فلم کی سٹوری بھی روایتی سٹوری سے مختلف ہے۔
انعم تنویر نے فلم کا خلاصہ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک پاکستانی ایکشن تھرلر ہے، جس میں انہوں نے ہیروئن کا کردار ادا کیا ہے۔
فلم کی کہانی دو گینگز کے درمیان تنازعات پر مبنی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اداکارہ سے سوال کیا کہ کیا کم بجٹ میں بھی اچھی فلم بنائی جا سکتی ہے؟
اس کے جواب میں اداکارہ نے کہا کہ ’فلم کا خاص پہلو اس کے کم بجٹ ہونے کے باوجود تخلیقی صلاحیت ہے۔ یہ فلم اس بات کی اچھی مثال ہے کہ کیسے محدود وسائل میں بھی ایک منفرد اور دل چسپ کہانی پیش کی جا سکتی ہے۔
’ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم میں کوئی روایتی رومانس نہیں ہے، جو پاکستانی فلموں میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ فلم ایکشن اور تھرلر کے عناصر پر مرکوز ہے، جس سے ناظرین کو ایک نئی نوعیت کا تجربہ ملتا ہے۔‘
انعم تنویر کا کہنا ہے کہ فلم کی کم بجٹ ہونے کے باوجود کامیابی کی توقعات ہیں۔
انہوں نے ہالی ووڈ فلمز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کی فلموں میں کم بجٹ کے باوجود بہت مؤثر ایکشن تھرلر کہانیاں بنائی جاتی ہیں۔
’ہماری لالی ووڈ انڈسٹری کو بھی اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہمارے لکھاری روایتی موضوعات کے علاوہ کچھ نیا لکھنے کی کوشش کریں۔‘
انعم نے بتایا کہ سب سے زیادہ ان کی محنت ٹائٹل سانگ ’ناچ کبیرا‘ میں لگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کیونکہ میں ڈانس میں اتنی ماہر نہیں لیکن کوریوگرافر پپو سمراٹ نے ہم پر بہت محبت کی۔‘
انہوں نے کہا کہ گانے میں چولی لہنگا پہننے پر مجھ پر تنقید کی جا رہی ہے۔ پر میرا ماننا ہے کہ اگر ان کے چولی لہنگا پہننے کو عریانیت سمجھا جائے، تو یہ ان کی نظر میں عریانیت نہیں ہے، بلکہ محض ایک کردار کی پرفارمنس ہے۔‘
حال ہی میں انعم نے ایک ریئلٹی شو میں بھی حصہ لیا تھا، جس میں وہ فائنل تک پہنچی تھیں۔ اس تجربے کے بارے میں انعم نے کہا کہ ’ریئلٹی شو میں جانے کے لیے دل گردہ چاہیے، کیونکہ آپ کو اپنے اصل انداز میں دنیا کے سامنے آنا ہوتا ہے۔‘
تاہم، ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ریئلٹی شو میں جانے سے انڈسٹری میں زیادہ موقعے نہیں ملتے، کیونکہ یہاں کام ریئلٹی شو کی بنیاد پر نہیں ملتا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر بگ باس انڈیا سے آفر آئی تو وہ جائیں گی؟ انعم نے فوراً کہا کہ وہ ضرور جائیں گی۔ ان کا خیال ہے کہ آرٹسٹ کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور ایسے پلیٹ فارم سے انہیں مزید پہچان ملے گی اور نیا تجربہ بھی حاصل ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انعم تنویر نے اپنے انٹرویو میں پاکستانی فلم انڈسٹری کے حوالے سے کہا، ’ہماری انڈسٹری میں آج بھی یہ رواج بن چکا ہے کہ لیڈ رول کے لیے صرف 18 سال کی لڑکیوں کو ہی کاسٹ کیا جاتا ہے، جیسے یہ کوئی قاعدہ بن چکا ہو۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ یہاں ٹیلنٹ کی قدر نہیں کی جاتی۔ اگر آپ کا جسم پتلا ہے، رنگ گورا ہے اور آپ کی عمر کم ہے تو ہی آپ کو ہیروئن کا کردار ملتا ہے۔‘
انعم نے ہالی ووڈ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انجلینا جولی جیسی بڑی اداکارہ بھی 35 سال کے بعد بھی ہیروئن کے طور پر کام کرتی رہیں۔
انعم نے مزید کہا، ’آرٹسٹ کو ہم نے اس نقطے پر باؤنڈ کر دیا ہے کہ وہ پتلی ہو، گوری ہو، اور کم عمر ہو، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو لوگ عمر گزار چکے ہیں یا جن کے جسم میں قدرتی تبدیلی آئی ہے، وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام نہیں کر سکتے۔‘
انعم تنویر نے اپنی فٹنس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’2011 سے پہلے میرا وزن زیادہ تھا، لیکن پھر میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنی صحت اور فٹنس پر زیادہ توجہ دینی ہوگی۔ میں فٹنس فریک ہوں اور ہمیشہ اپنی جسمانی حالت کو بہتر رکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں صحت بخش غذائیں کھاتی ہوں، اور روٹی یا پراٹھے جیسے چکنائی والے کھانے میری غذا کا حصہ نہیں ہیں۔‘
اداکارہ انعم کا کہنا تھا کہ ’اگر مستقبل میں مجھے ایکشن اور سٹنٹ سے بھرپور کوئی کردار ملتا ہے، تو میں اسے ضرور قبول کروں گی۔ میرے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، کیونکہ میں نے اپنی فٹنس پر کام کیا ہے اور اس طرح کے کرداروں کے لیے خود کو تیار رکھا ہے۔‘
انعم تنویر نے شادی کے بارے میں اپنی سوچ کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’شادی ایک بہت بڑا فیصلہ ہے، اور میں چاہتی ہوں کہ اس فیصلے کو سوچ سمجھ کر کروں۔
’کیونکہ مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے ہاں پڑھی لکھی لڑکی کو شادی کے بعد شوہر اور اس کے پورے خاندان کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔‘
انعم تنویر نے سیاست میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’میں چاہتی ہوں کہ ہمارے معاشرتی مسائل کو حل کیا جائے اور عوام کی حالت بہتر ہو۔ خاص طور پر سندھ میں، خصوصاً کراچی کی حکومت کے حوالے سے میں نالاں ہوں۔ کراچی، جو کبھی پاکستان کا سب سے خوبصورت اور ترقی یافتہ شہر تھا، آج وہاں کی حکومت نے شہر کو تباہ کر دیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’کراچی کی سڑکوں کا حال بہت خراب ہو چکا ہے، سڑکیں ختم ہو رہی ہیں، اور شہر کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ یہ صورت حال بہت مایوس کن ہے۔ جہاں تک بات ہے پنجاب کی، وہاں کی صورت حال نسبتاً بہتر ہے۔ وہاں کی حکومت نے شہر کی صفائی اور بنیادی ڈھانچے پر زیادہ توجہ دی ہے۔‘