پاکستان کی وفاقی حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے سود سے پاک معیشت سے متعلق فیصلوں کے خلاف اپیلیں واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں اقتصادی نظام کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کا عزم کیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کی شام اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ آئندہ چند روز میں وفاقی شرعی عدالت کے سودی نظام کے خاتمے سے متعلق فیصلوں کے خلاف اپیلیں واپس لے لی جائیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسائل اور پیچیدگیوں کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت پاکستان کی معیشت کو اسلامی خطوط پر چلانے کی کوشش کرے گی اور ملک میں سود کو ختم کرنے کی غرض سے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ملک میں سود کے خاتمے سے متعلق اعلان وہ وزیراعظم شہباز شریف کی اجازت اور مشورے سے کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کوشش کرے گی کہ تیزی سے ملک کے معاشی نظام کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جا سکے۔
بقول وزیر خزانہ: ’میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں توفیق دے اور مدد فرمائے کہ ہم سود سے پاک نظام کو تیزی سے آگے بڑھائیں۔‘
وفاقی حکومت نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی قیادت اور گورنر اسٹیٹ بینک کی مشاورت سے فیصلہ کیاہے کہ سود سے پاک بینکنگ نظام کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے گا
— Ishaq Dar (@MIshaqDar50) November 9, 2022
وفاقی شریت کورٹ کے اس حوالے سے فیصلے کے خلاف اسٹیٹ بینک و نیشنل بینک کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل اپیلوں کو بھی واپس لینے کا فیصلہ pic.twitter.com/FPkqzYGGtx
انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا ہو گا اور پورے معاشی نظام کو سود سے پاک کرنا جلد ممکن نہیں ہو گا، تاہم وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
اس سال اپریل میں وفاقی شرعی عدالت نے وفاقی حکومت کو ملک میں اسلامی اور سود سے پاک بینکاری نظام کے نفاذ کے لیے پانچ سال کا وقت دیا تھا۔
جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے وفاقی شرعی عدالت کے تین رکنی بینچ کی جانب سے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ سود کا خاتمہ اسلامی نظام کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور سود سے متعلق کوئی بھی لین دین ’غلط‘ ہے۔
وفاقی شریعت عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ’سود کا خاتمہ اور اس کی روک تھام اسلام کے مطابق ہے۔ قرض سمیت ہر صورت میں لیا گیا سود ربا میں آتا ہے اور سود اسلام میں مکمل طور پر حرام ہے۔‘
شرعی عدالت کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے بیرونی اور اندرونی قرضوں پر دیا جانے والا سود بھی سود کے تحت آتا ہے اور حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اندرونی، بیرونی قرضوں اور لین دین کو سود سے پاک کیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت بین الاقوامی اداروں کے ساتھ لین دین کو بھی سود سے پاک کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ نے 2001 میں سودی نظام کے خاتمے کے حکم پر عمل درآمد کا حکم دیا تھا، جس کے بعد یہ معاملہ وفاقی شرعی عدالت کے پاس چلا گیا تھا۔
وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو ملک میں سود سے پاک بینکنگ سسٹم کے نفاذ کے لیے پانچ سال کا وقت دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ایسا نظام 31 دسمبر 2027 تک ملک میں نافذ کیا جائے۔
عدالت نے کہا تھا کہ ’اگر آرٹیکل 38-ایف برسوں پہلے نافذ ہوتا تو سود ختم ہو چکا ہوتا۔‘ اس میں مزید کہا گیا تھا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 20 فیصد بینکنگ اسلامی نظام کی طرف منتقل ہو چکی ہے اور ملک میں اسلامی اور سود سے پاک بینکاری نظام کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے پانچ سال کافی ہیں۔
عدالت نے سود ایکٹ 1839 اور سود کی سہولت فراہم کرنے والے تمام قوانین اور دفعات کو بھی غیر قانونی قرار دیا تھا۔