ہمارے ہاں مرد اور عورت کی الگ الگ تربیت کی جاتی ہے۔ مرد کو بولنا سکھایا جاتا ہے اور عورت کو چپ رہنے کا درس دیا جاتا ہے۔ ہماری خواتین بھی اس درس کو پانی میں گھول کر پی لیتی ہیں۔ مر جاتی ہیں لیکن اپنی چپ نہیں توڑتیں۔ اکثر خواتین کی کامیاب ازدواجی زندگی کا راز بھی یہی چپ ہوتی تھی۔ پتہ نہیں کس نے انہیں ایک چپ سو سکھ کا وظیفہ بتا دیا تھا۔ تب سے نسل در نسل یہی وظیفہ چلتا آ رہا ہے۔ جو عورت چپ رہتی ہے وہ اچھی عورت کہلاتی ہے اور جو بولتی ہے وہ بری بن جاتی ہے۔
بری عورتوں کی اس فہرست میں محسن عباس حیدر عرف ڈی جے کی بیوی فاطمہ سہیل کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ فاطمہ نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں انکشاف کیا کہ ان کے شوہر شادی کے بعد انہیں تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ حتیٰ کہ جب وہ حمل سے تھیں تب بھی ان کے شوہر نے ان پر تشدد کیا۔ معروف اداکار گوہر رشید اور دعا ملک نے اپنی اپنی پوسٹس میں لکھا کہ وہ ایسے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔
محسن عباس حیدر نے ان الزامات کے جواب میں قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر پریس کانفرنس کی۔ اس کانفرنس کا لبِ لباب یہ تھا کہ فاطمہ ان سے زیادہ ان کے گھر کے کاغذات میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ ان کی فیس بک پوسٹ محض جھوٹ پر مبنی ہے۔ محسن سے زیادہ خواتین کی عزت کوئی نہیں کرتا۔ انہوں نے شادی گھریلو سکون کے لیے کی تھی جو انہیں کبھی نہیں ملا۔ ان کے سسر 'شاید' سپین میں رہتے ہیں اور ساس بازاری زبان استعمال کرتی ہیں۔ ان کا فیس بک اکائونٹ ہیک ہو چکا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہر روتی ہوئی عورت سچی نہیں ہوتی۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کو پیغام دیا ہے کہ اگر وہ سچی ہیں تو آئیں اور قرآن پر ہاتھ رکھ کر اپنا الزام دہرائیں۔
ان دونوں میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ گرچہ محسن کی باتیں ویسی ہی ہیں جو اکثر آدمی بیوی کی طرف سے الزام لگنے کے بعد کیا کرتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ باتیں علی ظفر بھی کر چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ بھی سچ ہے کہ خواتین گھریلو تشدد برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر شادیاں خواتین کی اسی 'برداشت' کی وجہ سے کامیاب ہوتی ہیں۔
لڑکیوں کو بیاہتے ہوئے شوہر کا درجہ اچھی طرح سمجھا دیا جاتا ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ شوہر کے آگے چوں نہیں کرنی۔ وہ اونچی آواز میں بولے تو تم نے چپ کر جانا ہے، وہ تھپڑ مارے تو تم نے سوچنا ہے کہ تم سے ایسی کیا خطا ہوئی کہ اسے یہ قدم اٹھانا پڑا اور کہیں اس کے جسم پر موجود کسی پھوڑے سے پیپ بہہ نکلے تو اسے چاٹ جانا ہے۔ اب جو لڑکیاں اس تربیت کے ساتھ دوسرے گھر جائیں گی وہ کہاں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گی؟
ہم نے اچھی اور بری عورت کے درمیان تخصیص بھی اسی تشدد کی بنیاد پر کی ہوئی ہے۔ جو عورت شوہر کے ہاتھوں مار کھاتی کھاتی قبر تک جا پہنچے وہ ہمارے ہاں عزت دار کہلاتی ہے اور جو عورت شوہر کا اٹھا ہوا ہاتھ ہوا میں ہی پکڑ کر جھٹک دے، اسے بری عورت تصور کیا جاتا ہے۔ اچھی عورت بننے کی اس دوڑ میں یہ خواتین شوہر کا ہر قسم کا تشدد اس کا حق اور اپنی غلطی کی سزا سمجھ کر برداشت کرتی ہیں۔ کسی کی برداشت ختم بھی ہو تو صبر کے گھونٹ بھر لیتی ہے۔ ہم اپنی بیٹیوں کو کشتیاں جلا کر ہی رخصت کرتے ہیں۔ ہم ان کی پشت پر موجود ہوتے ہیں لیکن ہماری حیثیت بھی انہیں معلوم ہوتی ہے۔
ہم عورتیں بھی معصوم ہوتی ہیں۔ اس تشدد کے خلاف قدم اٹھا بھی لیں تو خود کو ہی مشکوک سمجھتی رہتی ہیں۔ ایسے نہیں ویسے کر لیا ہوتا تو شائد نوبت ہی نہ آتی۔ انہیں کون بتائے کہ ہر رشتہ دونوں اطراف سے کی جانے والی برابر کوششوں سے چلتا ہے۔ کسی بھی رشتے کا بار صرف ان کے کندھے پر نہیں ہوتا، اس میں دوسری پارٹی کا بھی برابر کا حصہ ہونا ضروری ہے۔ اگر صرف وہ ہی رشتہ بچانے کی کوشش کر رہی ہیں اور آگے سے ایسی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی بلکہ ان کی مزید تذلیل کی جا رہی ہے تو انہیں ایسے رشتے سے باہر نکل آنا چاہئیے۔ بطور معاشرہ ہم ان کے لیے یہ قدم جتنا سہل بنائیں گے وہ اتنی آسانی سے ایسے رشتوں کو خداحافظ کہہ سکیں گی۔
والدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اعتماد دیں۔ انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے دیں اور اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کی آزادی دیں۔ جب ہم انہیں مکمل انسان سمجھیں گے اور انہیں بھی اس کا احساس دلائیں گے تب ہی کوئی تیسرا بھی انہیں انسان سمجھے گا۔ اپنی بیٹیوں کو چپ رہنا نہیں بلکہ بولنا سکھائیں۔ وہ بولیں گی تو مسائل کی نشاندہی کریں گی اور تب ہی ان کا حل نکلے گا۔