مون سون اسلام آباد، راولپنڈی کے لیے کتنا خطرناک ہوگا؟

بس ذرا سی بارش ہونے کی دیر ہے پانی آبادیوں میں داخل ہو جائے گا اور اگر بارش تین چار سو ملی میٹر ہو گئی تو پھر پانی آبادیوں کے اوپر سے گزر جائے گا۔

اسلام آباد میں 28 جولائی 2021 کو ہونے والی بارشوں کے بعد فوجی اہلکاروں نے بھی امدادی کاموں میں حصہ لیا تھا (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

مون سون کا آغاز ہے اور لاہور میں بارش کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے جہاں بدھ کو 291 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ یہ لاہور سمیت پنجاب کے بڑے شہروں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق گذشتہ سال اگست میں ملک بھر میں جو بارشیں ہوئی تھیں وہ اوسط سے 243 فیصد زیادہ تھیں، لیکن یہ اوسط بلوچستان میں 590 اور سندھ میں 726 فیصد زائد تھی۔ سیلاب  کے نتیجے میں 1100 اموات ہوئیں اور اور ملکی معیشت کو30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔

جس طرح کی بارشیں گذشتہ سال سندھ اور بلوچستان میں ہوئیں، اگر ویسی ہی اس بار ملک کے بالائی علاقوں اور پوٹھوہار میں ہو جاتی ہیں تو صورت حال کتنی گھمبیر ہو سکتی ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

راولپنڈی، اسلام آباد میں 23 جولائی 2001 کو بارش کا جو ریکارڈ قائم ہوا تھا، وہ 620 ملی میٹر تھا، جس کے نتیجے میں 61 لوگوں کی موت ہوئی تھی اور 800 گھر مکمل  طور پر تباہ ہوئے تھے۔

شمالی علاقہ جات میں ایک لوکل کہاوت ہے کہ دریا کے باہر کناروں سے دور جو بڑے بڑے پتھر پڑے ہوتے ہیں، یہ دراصل دریا کے انڈے ہوتے ہیں جنہیں سینچنے کے لیے دریا کبھی نہ کبھی ان تک ضرور پہنچتا ہے۔

راولپنڈی، اسلام آباد کہوٹہ اور مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں آباد ہیں اور شہر کے بیچوں بیچ کئی ندی نالے گزرتے ہیں۔ 2013 میں اس وقت کے کمشنر راولپنڈی ثاقب ظفر کی جانب سے مرتب کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ضلع راولپنڈی میں برساتی ندی نالوں کی تعداد 105 ہے۔

دریائے سواں اگرچہ اسلام آباد کی شہری حدود کے باہر باہر سے سملی ڈیم سے ہوتا ہوا ہمک، ڈی ایچ اے، سواں گارڈن، ریور گارڈن، بحریہ ٹاؤن اور مورگاہ سے گزرتا ہوا جاتا ہے تاہم، نالہ لئی دونوں شہروں کے بیچوں بیچ اور دریائے کورنگ راول ڈیم سے ہوتا ہوا جی ٹی روڈ پر سواں میں مل جاتا ہے۔

گذشتہ 20 سالوں میں دریائے سواں اور دریائے کورنگ کے ارد گرد ہاؤسنگ سوسائٹیاں تیزی سے پھیلی ہیں، جس کے نتیجے میں دریا کا قدرتی بہاؤ بھی متاثر ہوا ہے کیونکہ ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے دریا کے اندر جا کر تعمیرات شروع کی ہوئی ہیں۔

گوگل میپ سے واضح ہوتا ہے کہ بعض جگہوں پر دریا کی چوڑائی جو ایک ایک ہزار فٹ تک تھی، اب وہ چند سو فٹ تک آ چکی ہے۔

ڈی ایچ اے فائیو اور سکس کے اندر سے ایک لنگ نالہ گزرتا ہے جو کہوٹہ کی پہاڑیوں میں دریائے جہلم کے ساتھ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ نالہ سہالہ سے ہوتا ہوا اسلام آباد ایکسپریس وے پر کاک پل سے ذرا پہلے دریائے سواں میں شامل ہوتا ہے۔

کہوٹہ میں جب بھی طوفانی بارشیں ہوتی ہیں یہ نالہ بپھر جاتا ہے، مگر گذشتہ دس سالوں میں اس کے گرد ڈی ایچ اے نے دو نئے سیکٹر فائیو اور سکس بنائے ہیں۔

گوگل میپ کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ نالہ پہلے کتنا چوڑا تھا اور اب کتنا رہ گیا ہے۔

چونکہ نالوں کے ارد گرد کا رقبہ دیہہ شاملات کا حصہ ہوتا ہے اس لیے اس رقبے کو ہڑپ کرنا آسان شکار ہوتا ہے۔ محکمہ مال کے متعلقہ اہلکار ’ساتھ مل‘ جاتے ہیں اور مقامی انتظامیہ یا تو ان ہاؤسنگ سکیموں کے اثرورسوخ کی وجہ سے خاموش ہوتی ہے یا پھر اسے ’اپنا حصہ‘ مل جاتا ہے۔

اسی انداز میں دریائے سواں میں پچھلے دس سالوں میں بڑے پیمانے پر تجاوزات ہوئی ہیں۔ ریور گارڈن، سی بی آر اور بحریہ ٹاؤن نے اس کے اندر سینکڑوں فٹ پر پلازے اور مکانات تعمیر کر دیے ہیں۔ دو سال پہلے جب کہوٹہ میں طوفانی بارش ہوئی تو سواں گارڈن اور ریور گارڈن کے کئی سیکٹر ڈوب گئے۔ بحریہ ٹاؤن نے جو پلازے دریا کے ساتھ کھڑے کیے تھے ان میں دراڑیں پڑ گئیں۔

مگر بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے مزید تجاوزات قائم کرتے ہوئے فیز فور اور جی ٹی روڈ کے درمیان دریا کے اندر جا کر پھر پلازے بنا لیے ہیں اور مزید بنائے جا رہے ہیں جن کا چرچا گذشتہ مہینوں میں سوشل میڈیا پر بھی رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جی ٹی روڈ پر دریائے سواں پل کے دوسری جانب ڈی ایچ اے سواں کے کنارے پر دریا کے اندر ایک کشادہ سڑک تعمیر کر رہا ہے۔ جہاں دریائے سواں اور نالہ لئی ملتے ہیں وہاں ناقص ڈیزائن کی وجہ سے ایک زیر تعمیر پل بھی دس روز پہلے گر چکا ہے۔ اس لیے امکان ہے کہ اگر اس بار بارشیں زیادہ ہو گئیں تو پھر شہر اور ان ہاؤسنگ سوساٹیوں کا منظر نامہ کیا ہو گا؟

دریائے سواں سے بھی کہیں زیادہ خطرناک دریائے کورنگ ہو سکتا ہے، کیونکہ راول ڈیم سے جی ٹی روڈ تک اس کے گرد جو تعمیرات ہوئی ہیں وہ خود رو اور غیر قانونی ہیں۔ یہ آبادیاں اتنی گنجان آباد ہیں کہ یہاں سب سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔  جن میں پنڈوریاں، برما ٹاؤن، غوری ٹاؤن، کورال اور گلبرگ گرین کے علاقے شامل ہیں۔

نالہ لئی مارگلہ پہاڑیوں کے ایک درجن سے زائد نالوں کا پانی لیے ہوئے دونوں شہروں کے بیچ سے گزرتا ہے۔ 2001 کے سیلاب میں بھی اس نالے نے سب سے زیادہ تباہی مچائی تھی جس کے بعد طے ہوا تھا کہ نالے کے گرد تجاوزات ختم کی جائیں گی مگر آج وہ تجاوزات 2001 کے مقابلے میں دوگنا ہو چکی ہیں۔

یہ نالہ ایف ٹین، جی ٹین، ایچ ٹین، آئی ٹین سے ہوتا ہوا راولپنڈی کے علاقوں سیٹلائٹ ٹاؤن، خیابان سرسید، عید گاہ شریف، راجہ بازار اور چکلالہ سے گزر کر دریائے سواں میں گرتا ہے۔

جب پورے شہر کا سیوریج بھی اسی نالے میں جائے گا تو پھر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تجاوزات کے ساتھ ساتھ اس کی تنگی کا عالم کیا ہو گا۔ بس ذرا سی بارش ہونے کی دیر ہے، پانی آبادیوں میں داخل ہو جائے گا اور اگر بارش تین چار سو ملی میٹر ہو گئی تو پھر پانی آبادیوں کے اوپر سے گزر جائے گا۔

تین ماہ پہلے کمشنر راولپنڈی نے دریاؤں اور ندی نالوں میں تجاوزات کے خاتمے کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی بنائی جس نے 14 دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنی تھی۔

اس کمیٹی کے ذمے تھا کہ وہ دریائے سواں کی حد بندی کرے اور پانی کی قدرتی گزر گاہوں کے ساتھ جو تجاوزات کی گئی ہیں، ان کی نشاندہی کرے۔

اس سلسلے میں کمشنر آفس میں ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ نازیہ سدھن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایریگیشن اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ نے رپورٹ پیش کرنی تھی مگر ابھی تک یہ رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔

اس سے پہلے راولپنڈی کے سابق کمشنر ندیم اسلم چوہدری نے بھی 2018 میں نالہ لئی اور دریائے سواں میں پانی کے قدرتی بہاؤ کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے ارد گرد تعمیرات پر مکمل پابندی اور دفعہ 144 کے نفاذ کی تجویز دی تھی مگر اس بات کو بھی پانچ سال گزر گئے ہیں اور ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔

موجودہ کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ اور ڈپٹی کمشنر حسن وقار چیمہ کے دفتر میں متعدد بار رابطہ کیا گیا کہ جس کمیٹی نے 14 روز میں رپورٹ پیش کرنی تھی وہ تین ماہ تک رپورٹ کیوں پیش نہیں کر سکی؟ جس پر ایک ہی جواب دیا جاتا رہا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں؟

یہ وہ جواب ہے جو یہاں کے باشندے آزادی سے پہلے گورے افسروں سے سنتے تھے اور اب ان افسروں سے سنتے ہیں۔ میٹنگ کبھی ختم نہیں ہوتی مگر اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کوئی نہیں جانتا۔

تر یاق  از عراق  آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود: یعنی جب تک سانپ کے کاٹے کا علاج عراق سے پہنچے گا مریض دم توڑ چکا ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ