پانی نہیں دیکھتا کس کی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے

کسی غریب کی ملکیت پر قبضہ کیا جائے تو کورٹ کچہری کے چکروں میں ہی وہ مر جاتا ہے لیکن پانی کورٹ کچہری سے مبرا ہے اور وہ جب قوت سے آتا ہے تو نہیں دیکھتا کہ کون سی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے اور کس جاگیردار یا وڈیرے کی زمین ہے۔

دریائے سواں تین اضلاع یعنی راولپنڈی، چکوال اور اٹک میں سے گزرتا ہے اور مون سون سیزن میں جب اس میں بہت پانی ہوتا ہے تو اس کا زیادہ تر پانی دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے (سجاد اظہر)

آج کل سوشل میڈیا پر ایک بار پھر بحریہ ٹاؤن کا کافی چرچہ ہے اور وہ اس بات پر ہے کہ مبینہ طور پر اس ہاؤسنگ سوسائٹی نے اب دریائے سواں کے راستے پر بھی تعمیراتی کام شروع کر دیے ہیں، جس سے اس دریا کا راستہ تنگ ہو جائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے۔

لیکن دوسری جانب کاغذوں پر اس دریا کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ چند سال قبل حکومت پنجاب نے ایک رپورٹ مرتب کی تھی کہ کیسے مری سے شروع ہونے والے دریائے سواں کے پانی کو بہتر طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پنجاب کے پوٹھوہار علاقے میں ایک اعشاریہ آٹھ آٹھ ایم اے ایف پانی آتا ہے جس میں صفر اعشاریہ دو چھ  چھوٹے اور درمیانے سائز کے ڈیموں میں استعمال ہو جاتا ہے جبکہ باقی سمندر کی جانب چل پڑتا ہے۔ چونکہ اس علاقے میں زیر زمین پانی 300 فٹ تک نہیں ہے اس لیے پینے کا پانی صرف چھوٹے اور میڈیم پانی کے ذخائر میں موجود ہوتا ہے۔

یہ دریا تین اضلاع یعنی راولپنڈی، چکوال اور اٹک میں سے گزرتا ہے اور مون سون سیزن میں جب اس میں بہت پانی ہوتا ہے تو اس کا زیادہ تر پانی دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے پانی کے استعمال کے لیے کوئی بندوبست نہیں ہے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ اس پانی کو زراعت، پینے اور زیر زمین پانی کی سطح ری چارج کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔

اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ 10 ایسی سائٹس کا پہلے انتخاب کیا جائے گا جہاں پر ڈیم یا کسی اور سٹرکچر سے پانی کا استعمال کیا جا سکے تاکہ اتنی زیادہ مقدار میں پانی سمندر میں جا کر ضائع نہ ہو۔

دوسری جانب ایک تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ موسمی تبدیلی اور پانی کا رخ موڑنے کے باعث دنیا بھر میں جھیلیں سکڑ رہی ہیں اور کئی ممالک میں درجنوں جھیلیں سرے سے ہی غائب ہو گئی ہیں۔

تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 90 کی دہائی سے جھیلوں کے سکڑنے یا ختم ہونے کے باعث ہر سال اربوں لیٹر پانی کم ہو رہا ہے۔

تحقیق کے دوران دنیا بھر میں دو ہزار جھیلوں کا معائنہ کیا گیا اور اس سے یہ بات سامنے آئی کہ سالانہ 21.5 کھرب لیٹر پانی کم ہو رہا ہے۔

پاکستان میں تمام ویٹ لینڈز یعنی پانی کے ذخائر کو موسمی تبدیلی، سیلاب یا خشک سالی، پانی کی طلب میں اضافے اور بدانتظامی کے باعث کم یا بےقاعدہ پانی کی صورت حال کا سامنا ہے۔

پاکستان میں ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک تو گلیشیئرز کا پانی جھیلوں اور دریاؤں کو سیر کر رہا تھا لیکن موسمی تبدیلی کے باعث گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہو گئے ہیں، جس کے باعث ایک طرف سیلاب آتے ہیں اور دوسری جانب گلیشیئرز میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ مختصراً موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان میں مجموعی طور پر پانی میں کمی واقع ہو گی۔

سوات کی مثال دیکھ لیں، سندھ اور پنجاب میں کچے میں تعمیر کی مثال تو ہمارے سامنے ہر سال منہ چڑاتی ہے کہ پانی کا جو قدرتی راستہ ہے اس میں تجاوزات تعمیر کرو گے تو جیسے ہوا کسی کی نہیں ہوتی تو پانی تو پھر پانی ہے وہ بھی کسی کا نہیں ہوتا۔

دریا کا جو راستہ کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے وہ اسی کا راستہ ہے۔ باشعور ممالک میں دریاؤں کے راستے کا احترام کیا جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تعمیرات یا تجاوزات کی اجازت نہیں دی جاتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی بڑی مقدار میں موجود ہے اور دنیا میں صرف 35 ایسے ممالک ہیں جن کے پاس پاکستان سے زیادہ پانی کے وسائل ہیں، لیکن پانی کے وسائل کو بروئے کار نہیں لایا جا رہا اور بڑھتی آبادی موجودہ وسائل پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے۔

ایک طرف پانی کے وسائل کو ہم صحیح طور پر مینیج نہیں کر رہے تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی ناقابل تغیر بارشوں، قحط اور سیلاب کی صورت میں ہمارے موجودہ نظام پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے۔

پانی کی قلت اب بھی حکومت کے ریڈار پر نہیں آئی ہے۔ اس حوالے سے کسی قسم کی مربوط پالیسی یا بیانیہ سامنے نہیں آیا ہے۔ وقت نکلتا جا رہا ہے۔ ملک کے 22 کروڑ عوام 2025 تک شاید 25 کروڑ ہوجائیں گے۔

2025 وہ سال ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان مطلق پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ مطلق پانی کی قلت سے صرف پاکستان کے ریگستانی علاقوں میں رہنے والے ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ وہ آبادی بھی متاثر ہوگی، جو ملک کے شمالی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں پانچ ہزار سے زائد گلیشیئرز ہیں۔

دریائے سواں کا تو ہم پہلے ہی وہ حال کر چکے ہیں کہ وہ اب کسی استعمال کے قابل نہیں رہا۔ اس کے آس پاس بنی ہاؤسنگ سوسائٹیاں موجود ہیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے تقریباً 55 لاکھ باسی اس دریا میں میونسپل سیوریج ڈالتے ہیں۔ دریا کے کناروں پر تجاوزات سے اس دریا میں آلودگی کی سطح میں کافی اضافہ ہوا ہے اور جیسے یہ فضلہ کافی نہیں ہے تو تعمیراتی مواد بھی اسی میں ڈال دیا جاتا ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں قانون کی عملداری اب کاغذ پر بھی نہیں رہی، وہاں دریا کے راستے میں تجاوزات کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ نتیجہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں۔ کسی غریب کی ملکیت پر قبضہ کیا جائے تو کورٹ کچہری کے چکروں میں ہی وہ مر جاتا ہے لیکن پانی کورٹ کچہری سے مبرا ہے اور وہ جب قوت سے آتا ہے تو نہیں دیکھتا کہ کون سی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے اور کس جاگیردار یا وڈیرے کی زمین ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ