انگلش چینل میں ڈوبنے والی کشتیوں کے لاپتہ تارکین وطن کا تلخ راز

نومبر 2021 میں تین مختلف واقعات میں انگلش چینل میں کشتی حادثے کا شکار ہونے والوں کے اہل خانہ کی روداد

چار جولائی 2023 کو ہسپانوی جزیرے کینری پر ٹینیرف کے جنوب میں واقع میونسپلٹی ارونا میں لاس کرسٹیانوس کی بندرگاہ پر آپریشن کے بعد تارکین وطن لکڑی کی کشتی سے اترنے کے بعد پر (اے ایف پی)

گذشتہ 18 ماہ سے ہر رات اچانک ہی مصطفیٰ مینا کی آنکھ اس یقین کے ساتھ کھل جاتی ہے کہ انہیں دروازے پر دستک سنائی دی ہے یا ان کے اس بیٹے کا فون آ رہا ہے، جو شمالی فرانس سے برطانیہ جانے والی ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ہونے کے بعد سے لاپتہ ہے۔

مصطفیٰ نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا: ’کوئی قبر ہو، جہاں ہم جائیں یا اس کی میت گھر آئے، کچھ بھی ہو۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ سمندر میں کسی چٹان کے نیچے ہے، یا ریت میں دفن۔ شاید وہ زندہ ہے۔ ہمیں بس جوابات چاہییں۔‘

24 نومبر 2021 کی نصف شب کے قریب ان کے 20 سالہ بیٹے زانیار نے پیغام بھیجا کہ وہ ایک سمگلر کے کنٹرول میں ہے اور انگلش چینل کو عبور کرنے کی نویں کوشش کرے گا۔

عراقی کردستان سے بذریعہ ویڈیو لنک بات کرتے ہوئے مصطفیٰ مینا نے کہا: ’اس نے مجھ سے کہا کہ میں یہ سب اس کی والدہ نہ بتاؤں ورنہ انہیں بے قراری سے نیند نہیں آئے گی۔ جب میں برطانیہ پہنچ جاؤں گا تو پھر آپ انہیں بتا دینا۔‘

اگلے روز مصطفیٰ نے سمگلر سے فون پر بات کی، جس نے زانیار کی بحفاظت آمد کی تصدیق کی اور چینل کراسنگ کے لیے رقم کی ادائیگی کو کہا۔ یہ سن کر ان کی بیوی پڑوس میں اپنی قریبی برادری کو بتانے گئیں اور خوشی منانے کے لیے مٹھائی خریدی۔

لیکن جب انہیں چینل میں کشتی حادثے کے بارے میں علم ہوا تو مصطفیٰ نے بتایا: ’یہ تمام والدین کے لیے بدترین ڈراؤنا خواب تھا۔‘

انہوں نے کہا: ’یہ درد ناقابل بیان ہے۔ ہم عراقی ہیں - یہاں ایسے خاندان بھی ہیں، جن کے عزیز 30 سال سے لاپتہ ہیں، جو اب بھی ان کی واپسی کے منتظر ہیں، لیکن جب یہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے تو پھر مختلف ہوتا ہے۔ ہمیں صرف جواب چاہییں۔‘

24 نومبر 2021 کو پیش آنے والا یہ واقعہ 30 سال سے زیادہ عرصے میں انگلش چینل میں پیش آنے والا بدترین سمندری حادثہ تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس واقعے میں 27 افراد مارے گئے، جن میں سے پانچ اب بھی لاپتہ ہیں اور صرف دو زندہ بچے تھے۔

عراقی کردستان سے ہی تعلق رکھنے والے زانا محمد، جن کے بھائی ٹوانا بھی اس حادثے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے، نے کہا: ’جب کچھ پتہ نہ تو، اس کا آپ پر پڑنے والا اثر تقریباً ناقابل بیان ہے۔

’اگر کسی کے پاس کوئی معلومات ہوں، کسی ماہی گیر کے پاس یا کسی بھی شخص کے پاس، حتیٰ کہ ان کے جسم کا ایک ٹکڑا بھی، کچھ بھی ہو جس سے ہمیں چین آ جائے۔ ہمیں سکون پانے کے لیے، مردہ یا زندہ اسے ڈھونڈنا ہے۔‘

ابتدائی طور پر حکام کا خیال تھا کہ یہ حادثہ فرانس کے پانیوں میں پیش آیا تھا، جہاں لاشیں اور زندہ بچ جانے والے افراد ملے تھے، لیکن بعد ازاں فرانسیسی تحقیقات میں جاری کیے گئے کال ریکارڈ اور نقشے پر نشانات سے تصدیق ہوئی کہ کشتی رات ڈھائی بجے کے قریب برطانوی پانیوں میں داخل ہوئی۔

 

برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی مسلسل یہ کہتی رہی ہے کہ اس کی توجہ غیر قانونی طور پر سفر کرنے والی کشتیوں کو روکنے پر ہے، جبکہ حزب اختلاف نے محفوظ اور قانونی راستے بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

امیگریشن کے شیڈو وزیر سٹیفن کینوک نے کہا کہ 24 نومبر 2021 کو لوگوں کے ڈوبنے کے واقعات کی مکمل عوامی تحقیقات کا معاملہ ’مجبوری‘ تھی اور انہوں نے حکومت سے ’مکمل آزادانہ اور شفاف تحقیقات‘ شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔

مصطفٰی، زانا اور تین دیگر خاندان، جن کے عزیز بھی اس رات لاپتہ ہو گئے تھے، نے فرانسیسی حکام کے خلاف قانونی کارروائی کی ہے جس کے متعلق وکلا کا کہنا ہے کہ ’توقع کے مطابق پیش رفت ہو رہی ہے اور گرفتاریاں جاری ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے برعکس تاثرین کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والی وکیل ماریہ تھامس نے کہا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے ایچ ایم کوسٹ گارڈ کے ساتھ مل کر کام کرنے والے ایک آزاد ادارے میرین ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن برانچ (ایم اے آئی بی) کی سربراہی میں شروع کی گئی تحقیقات ’مکمل طور پر غیر موثر اور ناکافی‘ ہیں۔

تھامس کا کہنا تھا: ’تحقیقات کا نتیجہ جو بھی ہو، جو کہ حتمی رپورٹ آنے تک ہمیں معلوم نہیں ہوسکتا، کافی نہیں ہو گا۔ ہم نہیں جانتے کہ آزاد تحقیقات کرنے والے ادارے ایم اے آئی بی نے کس سے بات کی ہے۔ یہ سب بند دروازوں کے پیچھے ہوا ہے۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اتنا زیادہ جانی نقصان ہوا ہے اور اس بات پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ کیا مکمل عوامی، قانونی تحقیقات شروع کی جائیں گی۔‘

ایک مشاورتی مدت، جس دوران قریبی رشتہ داروں کو بلایا گیا تھا، گذشتہ ہفتے ختم ہو گئی۔

ایم اے آئی بی کی حتمی رپورٹ موسم گرما کے آخر تک دی جائے گی۔ یہ پیش رفت نومبر 2022 میں شائع ہونے والی دو صفحات پر مشتمل عبوری رپورٹ کے بعد ہوئی ہے، جس میں وٹس ایپ کے ذریعے اہل خانہ کو کاپی پیسٹ کیے گئے خطوط بھیجے گئے تھے، جس میں ان کے عزیزوں کے نام نہیں تھے۔

قریبی رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ برطانوی حکام کی طرف سے بری طرح مایوس ہیں اور جو کچھ ہوا اس کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

زانا نے کہا: ہم سمجھتے ہیں کہ ایم اے آئی بی کو آگے بڑھ کر یہ کہنا چاہیے ’اس شخص نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ ہمارا ماننا ہے کہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ کشتی برطانوی پانیوں میں تھی۔ ٹیکنالوجی جھوٹ نہیں بولتی۔‘

مصطفیٰ نے کہا: ’کشتی برطانیہ کے پانیوں میں تھی لہذا ہمیں برطانوی حکام کا احتساب کرنا چاہیے۔ خیال رکھنا کرنا ان کا فرض تھا اور انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کیا۔ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔‘

 

اہل خانہ نیشنل کرائم ایجنسی کی سربراہی میں جاری اس مجرمانہ تحقیقات کے بارے میں بھی معلومات چاہتے ہیں، جس میں اس سمگلر کا پتہ لگایا جائے، جس نے چینل کراسنگ کا منصوبہ بنایا، جس میں ان کے پیارے لاپتہ ہو گئے تھے۔

مصطفیٰ نے کہا: ’ہمیں معلوم ہے کہ سمگلر کو گرفتار کر لیا گیا ہے، لیکن ہم نہیں جانتے کہ آیا اسے انصاف کا سامنا کرنا پڑا یا اس کے خلاف کوئی الزام عائد کیا گیا۔ اس مجرمانہ تفتیش کے لیے ہم سے کوئی معلومات نہیں لی گئیں اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی اپ ڈیٹ ہے۔‘

ایک اور واقعے میں 11 نومبر 2021 کو جنوبی سوڈان سے تعلق رکھنے والے پانچ افراد نے کایاک سے چینل عبور کرنے کی کوشش کی۔

ایک طوفان کے باعث کشتی کئی بار الٹی، جس میں دو افراد بال بال بچ گئے۔ ایک شخص ولیم نیوون گائی نے کشتی کا توازن برقرار رکھنے کے لیے پانی میں چھلانگ لگا دی اور اس کے بعد سے وہ نظر نہیں آئے۔

ولیم کے بھتیجے جیکبیومابولی نے کہا: ’جب آپ کے پاس مرنے والوں کی لاش کا ثبوت نہیں ہوتا، تو آپ آخری رسومات ادا نہیں کر سکتے، آپ صرف انتظار کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کی لاش دیکھ لیتے تو ہمیں کم از کم ہم یہ سمجھ آ جاتا کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔‘

صرف ایک ہفتہ قبل چار نومبر 2021 کو، ایک شخص نے اپنے 17 سالہ کزن حفتوم کے ساتھ چینل عبور کرنے کی کوشش کی۔ جب کشتی الٹ گئی اور ایک شخص پانی میں گر گیا تو حفتوم نے اسے واپس کھینچنے کی کوشش کی لیکن وہ خود بھی پانی میں گر گئے۔

امان صدمے میں ہیں اور وہ اب بھی اس بات کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ ان کے کزن کے ساتھ کیا ہوا۔

 

بیلجیئم کی ایک خاتون سٹیفن کینوک، جنہوں نے شمالی فرانس اور برطانیہ جانے سے قبل ان دونوں نوجوانوں کی میزبانی کی تھی، نے بتایا: ’امان کے بارے میں لگتا ہے کہ وہ زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ وقتاً فوقتاً مجھے ٹک ٹاک پر ویڈیوز بھیجتا ہے، جہاں ان کا ماننا ہے کہ وہ حفتوم کو دیکھ سکتے ہیں۔ حفتوم کے غائب ہو جانے کی حقیقت امان کے ذہن میں ایک شک پیدا کر دیتی ہے۔ سب سے بری بات یہ ہے کہ وہ تحقیقات نہیں کر رہے، اور ہمارے پاس ایسی کوئی خبر نہیں ہے کہ وہ تحقیقات شروع کریں گے۔‘

سٹیفن کینوک کا کہنا تھا، ’تمام حقائق کو منظر عام پر لانا ضروری ہے تاکہ ہم سبق سیکھ سکیں اور اس طرح کے مزید واقعات سے بچ سکیں۔‘

انہوں نے کہا: ’مکمل عوامی تحقیقات کا معاملہ ناگزیر ہے۔ کم از کم حکومت کو مکمل طور پر آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا عہد کرنا چاہیے تاکہ وہ جوابات تلاش کرنے میں مدد مل سکے، جو اہل خانہ اور پیاروں کو چاہییں۔‘

برٹش ریڈ کراس کے برطانیہ کے ڈائریکٹر برائے پناہ گزینوں کی مدد اور بحالی خاندانی روابط، ایلکس فریزر نے کہا: ’ریڈ کراس کی ٹیمیں بحفاظت پہنچنے کی کوشش کے دوران بچھڑ جانے والے خاندانوں کو دوبارہ ملانے اور لاپتہ رشتہ داروں کو تلاش کرنے میں انتھک محنت کرتی ہیں۔ ہم برطانوی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر زیادہ قابل رسائی محفوظ راستے بنائے تاکہ لوگ اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالے بغیر پناہ حاصل کرسکیں۔‘

میرین ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن برانچ کے ترجمان کا کہنا تھا: ’یہ ایک خوفناک حادثہ تھا جس میں کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایم اے آئی بی کی آزادانہ تحقیقات برطانیہ کے ہنگامی ردعمل کا جائزہ لے رہی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہماری تحقیقات اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گی کہ مستقبل میں اس طرح کے سانحے کے امکانات کو کم کرنے کے لیے سفارشات پیش کی جائیں۔ تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور ہم نے اس کے نتائج کے بارے میں سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورتی مدت مکمل کر لی ہے۔ ایک بار جب ہم مشاورت کے دوران دیے گئے فیڈ بیک کا جائزہ لے لیں تو رپورٹ اشاعت کے لیے تیار ہو گی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا